اسلام آباد(نیوز ڈیسک)خیبر پختونخوا میں حکومت نے دینی مدارس کی فہرستیں تیارکر لیں جن کی تعداد تین ہزار سے زیادہ ہے ان میں 770 مدارس ایسے ہیں جو حکومت کے پاس رجسٹرڈ نہیں ہیں۔مدارس کا یہ سروے نیشنل ایکشن پلان کے تحت شروع کیا گیا ہے۔ ان فہرستوں کے مطابق خیبرپختونخواکے مدارس میں تین لاکھ تیس ہزار طلبا زیر تعلیم ہیں ان میں ساڑھے چار ہزار غیر ملکی طلبا شامل ہیں۔ان مدارس میں سولہ ہزار کے قریب کل اساتذہ ہیں جن میں دو سو اسی غیر ملکی اساتذہ ہیں۔جنوبی ضلع بنوں میں سب سے زیادہ یعنی دو سو اکتالیس مدارس ہیں جن میں چھیاسٹھ مدارس غیر رجسٹرڈ ہیں۔پشاور میں دو سو بتیس اور ڈیرہ اسماعیل خان میں دو سو اکیس مدارس ہیں۔ان میں غیر رجسٹرڈ مدارس شامل ہیں لیکن ضلع کوہستان میں تمام بائیس مدارس رجسٹرڈ ہیں کوئی غیر رجسٹرڈ مدرسہ نہیں ہے۔وفاق المدارس خیبر پختونخوا کے ناظم مولانا حسین احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ مدارس کا رجسٹر نہ ہونے کی وجہ حکومتی پابندیاں اور بیوروکریسی کے طور طریقے ہیں۔انھوں نے کہا کہ سال دو ہزار چار تک مدارس کی رجسٹریشن پر پابندی عائد رہی اس کے بعد متعدد مدارس کے فارم رجسٹرار آفس میں جمع ہیں لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔انھوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت مدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جس پر پاکستان بھر کے مدارس احتجاج کا حق رکھتے ہیں۔ان کا کہنا تھاکہ یہ درست نہیں ہے کہ مدارس دہشت گردی کا گڑھ ہیں یا یہاں عسکری تربیت دی جاتی ہے کیونکہ اب تک کسی بھی ادارے نے یہ ثابت نہیں کیا کہ یہاں عسکری تربیت دی جاتی ہے۔خیبر پختونخوا میں کوئی ڈیڑھ سو سے بھی کم مدرسے بی کیٹگری کے ہیں اور باقی تمام سی کیٹگری میں آتے ہیں۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ان مدارس میں کوئی ایک سو چالیس کے لگ بھگ انتہائی حساس قرار دیے گئے ہیں۔یہ رپورٹ پولیس اور خفیہ اداروں نے مشترکہ طور پر تیار کی ہے اور اب حتمی منظوری کے بعد یہ رپورٹ محکمہ داخلہ کو بھیج دی جائے گی۔آئین میں اکیسویں ترمیم میں جن دو نکات کو زیادہ اہمیت حاصل رہی ان میں ایک فوجی عدالتوں کا قیام اور تمام مدارس کی رجسٹریشن شامل ہے۔نیشنل ایکشن پلان پشاور میں آرمی پبلک سکول اینڈ کالج پر حملے کے بعد تیار کیا گیا تھا جس کے تحت ایپکس کمیٹیاں قائم کی گئیں۔ یہ کمیٹیاں ہر صوبے کی سطح پر قائم کی گئیں اور ان کمیٹیوں کے اجلاس میں وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی تھی۔