اسلام آباد(آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے صحافی محسن بیگ کے گھر پر چھاپہ مارنے سے متعلق کیس کی سماعت کی ۔عدالت نے ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے حکم دیا کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے اپنا بیان حلفی عدالت میں جمع کرائیں اور عدالت کو مطمئن کریں کہ آپ نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال نہیں کیا، ایف آئی اے پبلک آفس
ہولڈرز کیلئے مسلسل اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کر رہی ہے ،افریقہ کے ملکوں نے بھی ہتک کو فوجداری قوانین سے نکال دیا ہے صحافیوں کیلئے پاکستان غیرمحفوظ ممالک میں آٹھویں نمبر پر ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں اختیارات کا ناجائز استعمال کیا جاتا ہے ،اگر آپ عدالت کو مطمئن کر دیتے ہیں تو نوٹس ختم ہو جائے گا۔عدالت نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہا کہ ایف آئی اے مقدمے کا دفاع کریں، عدالت کے سامنے ڈائریکٹر سائبر کرائم ایف آئی اے بابر بخت قریشی عدالت کے سامنے پیش ہوئے ،دوران سماعت عدالت نے ایف آئی اے حکام سے استفسار کیا کہ آپ نے اس کورٹ اور سپریم کورٹ کو کیا انڈرٹیکنگ دی تھی؟ کیا ایس او پیز بنائے؟ آپ کو کہا تھا کہ ہتک عزت کے معاملے کو آپ نے فوجداری قانون میں رکھا ہوا ہے ،جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایف آئی اے کو روگ ایجنسی نہیں بننے دیں گے آپ کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہے، ہر کیس میں ایف آئی اے اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہا ہے، چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ سے استفسار کیا کہ آپ کو کمپلینٹ کہاں ملی تھی جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ وفاقی وزیر مراد سعید نے 15 فروری کو لاہور میں شکایت درج کرائی جس پر عدالت نے سوال پوچھا کہ کیا مراد سعید وہاں وزٹ پر گئے ہوئے تھے؟ عدالت نے کہا کہ آپ پڑھ کر بتائیں کس جملے سے ہتک عزت کا پہلو نکلتا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے مراد سعید سے متعلق محسن بیگ کا جملہ پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس جملے میں کتاب کا حوالہ ہے،جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کتاب کا صفحہ نمبر محسن بیگ نے پروگرام میں بتایا ہے؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے جواب دیا کہ نہیں، یہ بات پروگرام میں نہیں کی گئی، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو توہین عدالت کا شوکاز جاری کر رہے ہیں ،جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ ہم بھی آپ کے بچے ہیں ایف آئی اے اہلکار کو مارا پیٹا گیا،جسٹس اطہر من اللہ نے جواب میں کہا کہ نہ آپ میرے بچے ہیں اور نہ میں آپ کا باپ ہوں ۔اس موقع پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ نے شکایت ملنے پر محسن بیگ کو کوئی نوٹس جاری کیا؟ جس پر ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ محسن بیگ کو نوٹس جاری نہیں کیا ،عدالت نے کہا کہ آپ کے قانون میں ہے کہ آپ نے پہلے انکوائری کرنی ہے، آپ نے کوئی انکوائری نہیں کی کیونکہ شکایت وزیر کی تھی، ٹاک شو ٹیلی ویژن پر ہوا تو پھر متعلقہ سیکشن کا اطلاق نہیں ہوتا، ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ نے کہا کہ جب وہ ٹاک شو فیس بک، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو ہم نے کارروائی کی، جس پر عدالت نے پوچھا کہ آپ نے کیا انکوائری کی؟
کیا ملزم نے وہ کلپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا؟ اس پروگرام میں کتنے لوگ تھے؟ سب نے وہی بات کی تو باقی تینوں کو گرفتار کیوں نہیں کیا؟ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے نے جواب دیا کہ باقی لوگوں نے وہ بات نہیں کی جو محسن بیگ نے کی جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کو اس بات کا یقین ہے؟ کیا آپ نے وہ کلپ دیکھا ہے؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ
کتاب میں کیا لکھا تھا وہ سب جانتے ہیں جس پر عدالت نے کہا سب کیا جانتے ہیں آپ جانتے ہونگے عام شکایت ہوتی تو پھر بھی گرفتاری نہیں بنتی تھی یہ تو پبلک آفس ہولڈر کی درخواست تھی ،ایف آئی اے پوری دنیا میں کیا پیغام رے رہی ہے ،یہ ایک آئینی عدالت ہے اور یہ آئین کے تحت چلنے والا ملک ہے ،گرفتاری ایک دھمکی ہے کہ اظہار رائے کی کوئی آزادی نہیں یہ عدالت برداشت نہیں کریگی،
اگر آپ میرٹ پر بات کرنا چاہتے ہیں تو بتائیں کہ کیایہ فحاشی ہے ،اگر کوئی کتاب کا حوالہ دیتا ہے تو فحاشی کیا ہے اگر کوئی کتاب کا حوالہ دے کر دھمکا رہا ہے تو اس کتاب میں کچھ ہو گا ،اس موقع پر عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل صاحب آپ کیوں خود کو شرمندہ کر رہے ہیں کیا مراد سعید کا نام کتاب کے صرف ایک صفحے میں لکھا ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے
عدالت کو بتایا کہ میں نے وہ کتاب نہیں پڑھی جس پر عدالت نے کہا کہ پھر آپ کس طرح یہ بات کر رہے ہیں سب سے بڑی فحاشی آئین کا احترام نہ کرنا ہے ،سب سے بڑی فحاشی اظہار رائے پر پابندی لگانا ہے، سب سے بڑی فحاشی اختیارات کا ناجائز استعمال ہے جو یہاں نظر آ رہا ہے ،اختیارات کے ناجائز استعمال سے کسی کی عزت نہیں بچتی ۔عدالت نے مزید کیس کی سماعت 24 فروری بروز جمعرات تک ملتوی کر دی۔