کراچی(این این آئی) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے کہاہے کہ کراچی کو قبرستان بنادیا، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بناکر پورا شہر تباہ کردیا گیا ،اس شہرپر فاتحہ پڑھنا شروع کردیں ، جو کچھ مردم شماری میں اس شہر کے ساتھ کیا ہے سب نے دیکھا۔حکومت کی منظوری سے شہر میں غیرقانونی تعمیرات ہوئی ہیں، لوگوں سے پیسے لے کر ساری بلڈنگز بنوا دیں۔
منگل کوسپریم کورٹ آف پاکستان کی کراچی رجسٹری میں شہرقائد میں تجاوزات کے خاتمے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران رپورٹ نہ پیش کرنے پر کمشنر کراچی نوید احمد شیخ پر شدید اظہارِ برہمی کیا جبکہ وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ کو فوری پیش ہونے کا حکم دیا۔وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ فوری پیش ہو گئے۔صوبائی وزیر سعید غنی اور ترجمان حکومتِ سندھ مرتضی وہاب بھی وزیرِ اعلی سندھ کے ہمراہ تھے،وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے عدالت سے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی،جس پر عدالت نے وزیرِاعلی سندھ کو ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی ۔قبل ازیں سماعت کا آغاز ہواتو ڈی جی ایس بی سی اے، ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین، کمشنر کراچی اور دیگر حکام پیش ہوئے۔سماعت کا آغاز ہواتوچیف جسٹس آف پاکستان نے کمشنر کراچی سے استفسار کیاکہ بتائیں عدالتی احکامات پر کتنا عمل درآمد ہوا؟کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ میری ابھی تعیناتی ہوئی ہے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو تیاری کر کے آنا چاہیئے تھا، ان لوگوں کو پتہ نہیں کیوں ہمارے سامنے پیش ہونے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
ان کو کیا معلوم کہ شہر والوں کی کیا ضروریات ہیں؟چیف جسٹس آف پاکستان نے استفسار کیا کہ آپ نے مئی 2019 کا آرڈر پڑھا ہے؟کمشنر کراچی نے جواب دیا کہ متعلقہ اداروں کو ہدایات جاری کر دی تھیں۔چیف جسٹس نے اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے آگے کسی اور کو
کہہ دیا ہوگا۔ شہر میں بتائیں کیا کام ہوا؟۔ وزیرِ اعلی سندھ کو بلوالیں، ان سے پوچھ لیتے ہیں۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے کہا کہ میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بتا دیتا ہوں۔چیف جسٹس نے کہا کہ انہیں رہنے دیں، وزیرِاعلی سندھ کو بلوا لیں۔چیف جسٹس نے کمشنر کراچی سے استفسار کیا کہ
کڈنی ہل پارک کی صورتِ حال بتائیں۔میونسپل کمشنر نے عدالت کو بتایا کہ کڈنی ہل پارک سے تجاوزات ختم کرا دی ہیں، نئی مسجد کی تعمیرات کا کام ہو رہا تھا جو رکوا دیا ہے، اس کی رپورٹ جمع کرا دی ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کہاں ہے رپورٹ؟ آپ خود گئے تھے وہاں؟
عدالتی احکامات پر عمل درآمد ہوا ہے؟چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ ہمیں باقی شہر کا بتائیں کل کیا کام ہوا ہے وہ بتائیں، ساری بلڈنگز اپنی جگہ پر ویسے ہی بنی ہوئی ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ موہتہ پیلس کے سامنے زمینوں پر کسی نے جعلی کاغذ بنا کر
قبضہ کرلیا ہے ، کمشنر کراچی صاحب کسی دور میں وہاں بچے کھیلتے تھے جائے وہ زمین وا گزار کرائیں، شہر کی بلڈنگز ابھی تک اپنی جگہوں پر ہے، آپ نے کونسی عمارت گرائی بتائیں، کھوڑی باغیچہ کا کیا حال ہے، لیاری کا حال آپ نے دیکھا ہے، لیاری اور گارڈن سے پلے گرائونڈ
پارک ختم ہوچکے ہے، باغ ابن قاسم کی کیا پوزیشن ہے؟ وہاں ایک بڑی بلڈنگ بنی ہوئی ہے اس کا کیا ہوا؟ وہ پلاٹ کس کا ہے 4000 گز کے پلاٹ پر بلڈنگ کس کی ہے؟، جائے اپنی زمین خالی کراکر کل رپورٹ دیں، جائیں جاکر قبضہ ختم کرائیں ، آپ کو ان ہی سے لڑنا ہے چھوٹے موٹے پتھارے
والوں کو چھوڑیں۔چیف جسٹس نے کڈنی ہل کی زمین واگزار کرانے کے معاملے پر کمشنر کراچی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل تک کڈنی ہل زمین کلیئر نہ ہوئی تو جیل بھیج دیں گے ، تجاوزات کا مکمل خاتمہ کرکے رپورٹ دیں، اگر کل تک عمل درآمد نہ ہوا تو جیل بھیجنے کے
علاوہ کوئی آپشن نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے ایس بی سی اے کے ڈی جی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سب کو نظر آتا ہے آپ لوگوں نے کراچی کے ساتھ کیا کیا ہے، افسران کی تو موج ہی موج ہے، اس شہر کو قبرستان بنادیا ہے، گلیوں میں اونچی اونچی عمارتیں بنا دیں پورا شہر تباہ کردیا
، فاتحہ پڑھنا شروع کردیں اس شہر پر ، کوئی امریکا کوئی لندن اور کینیڈا میں بیٹھا ہے ، آپ بھی کل چلے جائیں گے امریکا تباہ کردیں اس شہر کو، جو کچھ مردم شماری میں اس شہر کے ساتھ کیا ہے سب نے دیکھا ، حکومت کی منظوری سے شہر میں غیرقانونی تعمیرات ہوئی ہیں،
لوگوں سے پیسے لے کر ساری بلڈنگز بنوا دیں، سب کو ماردیں گے آپ لوگ ابھی سے فاتحہ پڑھ دیں کروڑوں لوگوں پر ، یہ شہر تو اب پرائیویٹ لوگوں کا ہوگیا سب نے اپنی مرضی کے علاقے بنالیے ، غریبوں نے ساری زندگی کی جمع پونجی لگا دی غیر قانونی زمینیں بیچ دی آپ لوگوں
نے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ شہر بھر میں غیر قانونی تعمیرات موجود ہیں، غیر قانونی تعمیرات کرنے والے 90 فیصد لوگ شہر چھوڑ کر جاچکے ہیں، اب کس کو پکڑیں گے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ غیر قانونی تعمیرات کرنے والے بڑے مافیاز ہیں، ایک ایک پلاٹ کئی کئی
لوگوں کو الاٹ ہوئے، رفاہی پلاٹوں پر بھی تعمیرات ہوئیں لیکن کوئی روکنے والا نہیں، ایک دن یہ شہر زمین بوس ہوجائے گا اور ایک کروڑ 40 لاکھ لوگ اس دنیا سے چلے جائیں گے۔چیف جسٹس نے کمشنرکراچی پراظہارِ ناراضی کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ پر چارج فریم کر کے آپ کو سن لیتے ہیں۔
اب آپ کو جیل بھیج دیں گے، آپ کو پتہ ہی نہیں کراچی کے مسائل کیا ہیں۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کمشنر کراچی کو کیا معلوم ہو گا، آپ دو دو مہینے کیلئے کمشنر لگاتے ہیں، ہمیں وزیرِ اعلی بتائیں گے کہ کتنا عمل ہوا یہ بیچارے افسران کیا بتائیں گے؟ ان کو تو خود کچھ معلوم نہیں کہ
کراچی میں کیا ہو رہا ہے، کیا ضروریات ہوتی ہیں؟چیف جسٹس گلزار احمد نے کراچی سے تجاوزات ہٹانے سے متعلق رپورٹ پیش نہ کرنے پر اظہارِبرہمی بھی کیا۔کمشنر کراچی نے عدالت کو بتایا کہ ہم نے اعلی افسران کو رپورٹ جمع کرا دی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے رپورٹ آگے
پھر انہوں نے اور آگے دے دی ہوگی، آپ کو کیا صرف سیٹ گرم کرنے کیلئے بٹھایا گیا ہے؟چیف جسٹس پاکستان نے کمشنر کراچی کی سرزنش کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ کو کچھ معلوم بھی ہے کہ کیا کرنا ہے؟ کچھ نہیں جانتے ادھر ادھر کی باتیں مت کریں، آپ وزیرِاعلی سندھ کو بلائیں
ہم ان سے پوچھ لیتے ہیں۔اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ اورچیف سیکریٹری جواب دینے سے قاصر رہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ وزیراعلی سندھ نے ہمارے حکم پر عملدرآمد کیا یا نہیں؟اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت سے گزارش کی کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ ہائی کورٹ میں مصروف ہے۔
وزیراعلی سندھ کے بجائے ہم ایڈووکیٹ جنرل سندھ کو بلا لیتے ہیں۔چیف جسٹس گلزاراحمد نے حکم دیا آپ جائیں اور وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ کو بلا کر لائیں۔ ہم نے وزیراعلی سندھ کو عملدرآمد کا کہا تھا اس پر کیسے کام نہیں ہوا؟عدالت نے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ
وزیراعلی کوبلائیں اورکہیں رپورٹ لے کرآئیں۔ ڈیڑھ سال پہلے حکم جاری کیا تھا اب تک عمل نہیں ہوا، کیا توہین عدالت کی کارروائی شروع کردیں؟۔عدالت میں سماعت کے دوران سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی(ایس بی سی اے)کے ڈی جی بھی موجود تھے۔شہر کی حالت سے متعلق ریمارکس
دیتے ہوئے عدالت نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو مولوی ہیں، ابھی سے فاتحہ پڑھ لیں، جس پر انہوں نے جواب دیا کہ ہم تجاوزات کے خاتمے کی کوشش کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیا کریں گے بلڈوزر لے کر نکل جائیں جتنے غریب لوگ ہیں سب رل جائیں گے ،
سندھ بلڈنگ کے ایک ایک آدمی کے ساتھ پورا مافیا چلتا ہے۔ڈی جی نے کہا کہ مجھے حکومت کی سپورٹ ہے کام کروں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے اتنی کمزور سپورٹ کا ذکر کیا ہے جس کا وجود ہی نہیں ، حکومت ہوتی تو یہ حال ہوتا ؟ کراچی میں گینگ اور مافیاز کام کررہے ہیں ، پورا
شہر سب تجاوزات سے بھرا ہے غیرقانونی عمارتوں کی بھرمار ہے ، سرکاری زمینیں ہاتھ سے نکل گئی ہیں ساری ، فارمز بنے ہوئے ہیں۔ڈی جی ایس بی سی اے نے کہاکہ غیر قانونی تعمیرات کی انکوائری کررہا ہوں۔اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ اب کچھ نہیں کرسکتے،
کام کرنے والے ملک چھوڑ کر چلے گئے، آپ کو لوگ بیچ کرکھا گئے ہوں گے، آپ کے جعلی دستخط چل رہے ہوں گے، آج میڈیا سے پتا چلا ہے وزیر نے آپ کو بلڈنگ لینڈ منظور کرنے کا حکم دیا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں پتا ہے اگر وزیر کا حکم نہیں مانا تو آپ زیادہ دیر تک عہدے
ہر نہیں رہ سکتے۔عدالتی ریمارکس کے بعد ڈی جی ایس بی سی اے نے جواب دیا کہ اب رفاہی پلاٹوں پر غیر قانونی تعمیرات کی اجازت نہیں دے رہے، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے آپ بڑے معصوم لگ رہے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے
ان سے مکالمہ کیا کہ آپ لیاری سے لے کر ہائی وے تک کہاں، کہاں غیر قانونی تعمیرات گرائیں گے، کیا آپ نے بحریہ ٹائون دیکھا ہے، بحریہ ٹائون کو پورا ایک نیا شہر بنادیا گیا ہے، آپ سے بحریہ ٹائون میں کتنے گھروں کی اجازت لی گئی تھی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کے غیر قانونی
تعمیرات گرانے سے غریب لوگوں کے گھر جائیں گے، ان غریب لوگوں نے بھی پیسے دیے ہوں گے،اس پر ڈی جی نے کہا کہ پہلے معاملے کی انکوائری ہوگی، اس معاملے میں سندھ حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔اس پر چیف جسٹس نے انہیں کہا کہ یہ آپ نے کیا کہہ دیا، کس کمزور
حمایت کا آپ نے ذکر کردیا، آپ کے بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والوں کے ساتھ پورا مافیا ہے، آئی آئی چندریگر روڈ، بندر روڈ(موجودہ ایم اے جناح روڈ)اور اطراف کی گلیوں تک بھی غیر قانونی عمارتیں قائم ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کیس 4 سال سے چلارہے ہیں، اب تک کچھ نہیں ہوا، ایک
منزلہ عمارت کی اجازت پر کثیرالمنزلہ عمارت کھڑی کی جاری ہیں۔دورانِ سماعت وفاقی ادارے کے آئی ڈی سی ایل کے چیف آپریٹنگ آفیسر عدالتِ عظمی میں پیش ہوئے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وفاقی ادارے نے کوئی ذمے داری نہیں لی ہے۔چیف آپریٹنگ آفیسر
نے کہا کہ ہم نے اپنی 2 رپورٹس جمع کرا رکھی ہیں، وفاقی حکومت کے فنڈ سے گرین لائن پراجیکٹ بن رہا ہے، یہ سب سے سستا پراجیکٹ ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے گرین لائن پراجیکٹ بنانے سے پہلے شہر والوں سے پوچھا تھا؟۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے جواب دیا کہ جی ہم
سٹی کونسل سے وقتا فوقتا منظوری لیتے رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے استفسار کیا کہ گرین لائن کی وجہ سے کتنی مٹی اور کچرا ہے؟۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے بتایا کہ پہلا فیز مکمل ہو چکا ہے، دوسرے فیز کا کام نمائش تا ٹاور جاری ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قائدِ اعظم
کے مزار کے سامنے کوئی برج تو نہیں بنا دیا؟۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے بتایا کہ قائد اعظم مینجمنٹ بورڈ کی منظوری کے بعد نمائش پر انڈر گرائونڈ کام کر رہے ہیں، گرین لائن سروس کی بسیں مئی تک کراچی آ جائیں گی، گرین لائن سے روزانہ 3 لاکھ افراد سفر کریں گے۔چیف جسٹس نے
ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ نے شہر کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، آپ نے گرین لائن سروس شروع کرنے سے پہلے کوئی سروے کرایا تھا؟ آپ نے برج بنا دیئے ہیں، نیچے کے تین تین روڈ تباہ ہو گئے ہیں۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ ہم نے بیشتر سڑکیں بحال کر دی ہیں، ہم نے 4 ارب
روپے کی واٹر بورڈ کی لائنیں بچھائی ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے پراجیکٹ کونسا خود بنایا ہوگا؟ قرضہ لیا ہوگا۔چیف آپریٹنگ آفیسر نے کہا کہ کوئی قرضہ نہیں لیا، وفاقی حکومت کے فنڈ سے پراجیکٹ بن رہا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک دفعہ نارتھ ناظم آباد گئے تباہی مچی
ہوئی تھی، اتنی مشکل سے گئے سب تباہ ہوگیا ہے، آپ نے پورا بندر روڈ بھی خراب کردیا ، شہر کے بیچ میں بنانے کا کوئی جواز نہیں تھا انڈر گرائونڈ بناتے ، اربوں روپے لگا دیئے ، اس شہر کو ماس ٹرانزٹ کی ضرورت تھی ، مین سڑکیں تباہ کردیں ، دو دو تین تین لینز خراب کردیں ، سچ بات
یہ ہے آپ نے شہر کو تباہ کردیا ہے اگر کچھ کرنا تھا تو رنگ روڈز بناتے۔دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل سندھ عدالت میں پیش ہوئے جنہوں نے عدالتِ عظمی کو بتایا کہ وزیرِاعلی سندھ کو پیغام پہنچا دیا گیا ہے، وہ پیش ہو رہے ہیں، جس کے بعد وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ عدالت میں پیش ہو
گئے۔وزیرِ اعلی سندھ مراد علی شاہ نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے عدالت سے 2 ہفتوں کی مہلت مانگی جس پر عدالت نے وزیرِاعلی سندھ کو 1 ماہ کی مہلت دے دی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وزیر اعلی صاحب!ہم زمینی حقائق دیکھ رہے ہیں کہ کیا تبدیل ہوا ہے؟۔سپریم کورٹ رجسٹری میں مقدمات کی سماعت پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے، غیر متعلقہ افراد کا مرکزی دروازے سے داخلہ بند کردیا گیاتھا، کئی اعلی سرکاری افسران اور وکلا کو بھی دروازے پرروکا گیا، جن وکلا کا نام کاز لسٹ میں شامل تھا صرف انہیں داخلے کی اجازت ملی۔