اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت کے دوران حکومت کوکل جمعرات تک کوئی حل نکالنے کی مہلت دیتے ہوئے کہا ہے کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی ہے ، نوٹیفکیشن توسیع کا ہے، کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی۔
وزیراعظم نے سمری اور ایڈوائز تعیناتی کی بھیجی اور نوٹیفکیشن توسیع کا ہو گیا،اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے،جائیں دو دن ہیں کچھ کریں، ساری رات اکٹھے ہوئے اور کابینہ کے دو سیشن ہوئے، ہم نے سوچا تھا اتنے دماغ بیٹھے ہیں، اتنے غور کے بعد یہ چیز لے کر آئے ہیں ،ہمارے لیے تکلیف کی بات ہے، حل نکال لیںبصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے جبکہ ججز نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ماضی میں 6 سے 7 جنرل توسیع لیتے رہے ،کسی نے پوچھا تک نہیں، اب معاملہ ہمارے پاس آیا ہے تو طے کرلیتے ہیں،آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے، اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے، معاملہ انتہائی اہم ہے، آرٹیکل 255 ان لوگوں کیلئے ہے، جو سروس سے نکالے جاچکے یا ریٹائر ہوچکے ہیں،لیفٹیننٹ جنرل کے علاوہ کہیں بھی مدت کا تعین نہیں کیا گیا، بعض لیفٹیننٹ جنرلز کو تعیناتی کے بعد 4 سال کی مدت نہیں ملتی ، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں،حالت جنگ میں آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر ہوسکتی، جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، معاملہ توسیع اور نئی تعیناتی کا ہے۔
اس کو کیسے قانونی طور پر ثابت کریں گے؟ہم قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں، یہ قانون کی عدالت ہے یہاں شخصیات معنی نہیں رکھتیں، جو کام قانونی طور پر درست نہیں اسے کیسے ٹھیک کہہ سکتے ہیں؟،دوبارہ آرمی چیف کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوگی؟، کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے؟،بتائیں اچھی کارکردگی والے افسر کو کس قانون کے تحت عہدے پر برقرار رکھا جاتا ہے؟
فوج کا احترام ہے، فوج کے سربراہ بارے ابہام نہیں ہونا چاہیے،ملک میں ہیجانی کیفیت نہیں ہونی چاہیے، ہم اس کیس کا فیصلہ کریں گے۔ سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے جیورسٹ فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی کی جانب سے دائر درخواست پر سماعت کی۔آرمی چیف کی جانب سے سابق وزیرقانون فروغ نسیم ان کا کیس لڑنے کیلئے عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے حکومتی موقف پیش کیا ۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے کیس میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خود فریق بناتے ہوئے آرمی چیف، وفاقی حکومت اور وزارت دفاع کو نوٹس جاری کردئیے تھے۔بدھ کو اس کیس کی دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میڈیا پر غلط چلا کہ ہم نے ازخود نوٹس لیا ہے، میڈیا کو سمجھ نہیں آئی تھی کہ ہم ریاض حنیف راہی کی درخواست پر ہی سماعت کر رہے ہیں۔
سماعت میں چیف جسٹس نے اس معاملے پر واضح کرتے ہوئے پوچھا کہ کیا گمشدہ درخواست گزار کا علم ہوا؟ اس پر عدالت میں موجود ریاض حنیف راہی کو روسٹرم پر بلایا گیا۔روسٹرم پر آنے کے بعد چیف جسٹس نے پوچھا کہ ریاض راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے، گزشتہ روز آپ تشریف نہیں لائے، ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی، جس پر ریاض راہی نے کہا کہ حالات مختلف پیدا ہوگئے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں۔
آپ تشریف رکھیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل انورمنصور خان سے پوچھا کہ یہ بات طے ہے کہ گزشتہ روز جن خامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی ان کو تسلیم کیا گیا، خامیاں تسلیم کرنے کے بعد ان کی تصحیح کی گئی تھی، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ان خامیوں کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر خامیاں تسلیم نہیں کی گئیں تو تصحیح کیوں کی گئی؟۔اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں اس کی وضاحت کرتا ہوں۔
توسیع کے حوالے سے قانون نہ ہونے کا تاثر غلط ہے، یہ تاثر بھی غلط ہے کہ صرف11ارکان نے ہاں میں جواب دیا تھا جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پوچھا کہ اگر باقیوں نے ہاں میں جواب دیا تھا تو کتنے وقت میں دیا تھا یہ بتا دیں؟، گزشتہ روز جو آپ نے دستاویز دی تھی اس میں 11ارکان نے ہاں لکھا ہوا تھا، نئی دستاویز آپ کے پاس آئی ہے تو دکھائیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ گزشتہ روز کے عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں۔
میں نے گزشتہ روز آرمی رولز کا حوالہ دیا تھا، عدالت نے حکم نامے میں قانون لکھا،عدالت نے کہا صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جاچکی ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کابینہ سے متعلق نکتہ اہم ہے اس لیے اس پر بات کروں گا۔انور منصور کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو وہی لکھا جو آپ نے دستاویزات میں دیا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن اراکین کے جواب کا انتظار ہے ان کا جواب ہاں میں تصور کیا جانا چاہیے۔
اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کس قانون میں ہے کہ جن کے جوابات کے انتظار ہو وہ ہاں تصور ہوگااس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ رول 19 میں لکھا ہے کہ جن کے جواب کا انتظار ہو وہ ہاں تسلیم ہوگا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ اس رول میں یہ بھی واضح ہے کہ جواب کے انتظار میں وقت کا تعین ہوگا، آپ ہمیں دستاویزات میں تعین کردہ وقت دکھا دیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ 18ویں ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ میں تبدیلیاں ہوئی ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف ملٹری کو کمانڈ کرتا ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرٹیکل 243 کے مطابق صدر مملکت، افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں، آرٹیکل 243 کے تحت ہی صدر، وزیراعظم کے مشورے پر افواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 243 مراعات و دیگر معاملات سے متعلق ہے۔
کیا تعیناتی کی مدت کی بات کی گئی ہے، آرمی چیف کتنے عرصے کیلئے تعینات ہوتے ہیں، کیا آرمی چیف حاضر سروس افسر بن سکتا ہے یا ریٹائر جنرل بھی، اس معاملے میں قواعد کو دیکھنا ضروری ہے۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے پاس ترمیمی مسودہ ابھی آیا ہے، جس پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہمارے پاس وہ بھی نہیں آیا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ آئین و قانون کی کس شق کے تحت قواعد تبدیل کیے گئے۔
آرٹیکل 255 ان لوگوں کیلئے ہے، جو سروس سے نکالے جاچکے یا ریٹائر ہوچکے ہیں۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا انتہائی اہم معاملہ ہے، اس میں سب کی بات سنیں گے، یہ سوال آج تک کسی نے نہیں اٹھایا، اب اگر سوال اٹھ گیا ہے تو اسے دیکھیں گے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ماضی میں 5 یا 6 جنرلز خود کو توسیع دیتے رہے ہیں، مستقبل میں ایسے مسائل پیدا نہ ہواس لیے اس معاملے کو تسلی سے دیکھتے ہیں کیونکہ یہ معاملہ اب واضح ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ انتہائی اہم معاملہ ہے مگر اس میں آئین خاموش ہے جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت تعیناتی نوٹیفکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدیدی ہے۔اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ 5، 6 جنرل خود کو توسیع دیتے رہے، 10، 10 سال تک توسیع لی گئی لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں، تاہم آج یہ سوال سامنے آیا ہے، اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ تاثر دیا گیا کہ آرمی کی چیف کی مدت ملازمت 3 سال ہوتی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا۔سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جو صفحات آپ نے دئیے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں، آرمی ریگولیشنز کے مطابق ریٹائرمنٹ معطل کرکے افسران کو سزا دی جاسکتی ہے، حال ہی میں 3 سینئر افسران کی ریٹائرمنٹ معطل کر کے سزا دی گئی تھی۔اسی دوران عدالت میں موجود بینچ کے رکن جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے؟
کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے۔عدالتی سوال پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ لیفٹیننٹ جنرل 57 سال کی عمر میں 4 سال کی مدت مکمل کر کے ریٹائر ہوتے ہیں،اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل کے علاوہ کہیں بھی مدت کا تعین نہیں کیا گیا، بعض لیفٹیننٹ جنرلز کو تعیناتی کے بعد 4 سال کی مدت نہیں ملتی جبکہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کی مدت کا ذکر ہی نہیں۔جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔
جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا دستاویزات کے ساتھ آرمی چیف کا اپوانٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے؟، کیا پہلی بار جنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کیلئے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا اختیار کس کو ہے؟۔ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی تعیناتی کا لیٹر پیش کیا۔جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ اگر ریٹائرمنٹ سے دو دن قبل آرمی چیف کی توسیع ہوتی ہے تو کیا وہ جاری رہے گی۔
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ٹرم کا استعمال کیا جاتا ہے لیکن اس کا تعین کہیں نہیں، فوجی افسران کو کمیشن ملتا ہے جب ان کی تعیناتی ہوتی ہے، آرٹیکل 243/3 کے تحت کمیشن ملتا ہے تاہم آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پر قانون خاموش ہے، آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کر سکتی، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کی سفارش وزیراعظم نے کرنی ہے۔
اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو 2 مرتبہ معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں کہ تعیناتی میں توسیع بھی شامل ہوئی ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ نارمل (عام) ریٹائرمنٹ سے متعلق آرمی کے قواعد پڑھیں، آرمی ایکٹ کے رول 262 سی کو پڑھیں، جنرل کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال دی گئی ہے۔
ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 262 میں جنرل کی ریٹائرمنٹ کا ذکر نہیں۔اس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف پبلک سرونٹ نہیں ہیں، ان کی تعیناتی پبلک سرونٹ کرتے ہیں، آرمی چیف افسر سے بالاتر گریڈ میں ہوتے ہیں۔اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ معاملہ توسیع اور نئی تعیناتی کا ہے، اس کو کیسے قانونی طور پر ثابت کریں گے، جس پر انور منصور خان نے کہا کہ تعیناتی کی تعریف میں دوبارہ تعیناتی بھی آتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریٹائرمنٹ اور ڈسچارج کا ذکر رولز میں ہے۔
جب مدت مکمل ہوجائے پھر نارمل ریٹائرمنٹ ہوتی ہے، 253 کے ایک چیپٹر میں واضح ہے کہ گھر کیسے جائیں گے یا فارغ کیسے کریں گے۔اس موقع پر چیف جسٹس کے ریمارکس کے دوران اٹارنی جنرل نے بولنا چاہا تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ انور منصور صاحب آپ جلدی میں تو نہیں، جس پر جواب دیا گیا کہ نہیں میں رات تک یہاں ہوں، آرٹیکل 255 میں ایک ایسا لفظ ہے جو اس معاملے کا حل ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس آرٹیکل میں حالات کے تحت اگر ریٹائرمنٹ نہ دی جاسکے تو 2 ماہ کی توسیع دی جاسکتی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایک بندہ اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکا ہے تو اس کی ریٹائرمنٹ کو معطل کیا جاسکتا ہے، اگر جنگ ہورہی ہو تو پھر آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں عارضی تاخیر کی جاسکتی ہے۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ریٹائرمنٹ کی حد کا کوئی تعین نہیں۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ ان کی ریٹائرمنٹ نہیں ہوسکتی، مدت پوری ہونے پر محض غیر متعلقہ قاعدے پر توسیع ہوسکتی ہے، یہ تو بہت عجیب بات ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 255 جس پر آپ انحصار کررہے ہیں وہ تو صرف افسران کیلئے ہے، جس میں آپ نے ترمیم کی وہ تو آرمی چیف سے متعلق ہے ہی نہیں، آپ کے آرمی چیف اس میں نہیں آتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے کہ اگر جنگ ہورہی ہو تو چیف آف آرمی اسٹاف کسی کی ریٹائرمنٹ کو روک سکتا ہے۔
یہاں آپ چیف کو سروس میں برقرار رکھ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے، اس پر اٹارنی جنرل انور منصور خان نے عدالت کو بتایا کہ 1948 سے آج تک تمام آرمی چیف ایسے ہی تعینات ہوئے، جسٹس کیانی کی توسیع بھی ایسے ہی ہوئی۔عدالت میں اٹارنی جنرل کی جانب سے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔
چیف جسٹس کی اس بات پر عدالت میں قہقہے گونج اٹھے تاہم اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ جن فوجی افسران کو توسیع دی گئی ان کی فہرست دے چکا ہوں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف تعینات کیا جا سکتا ہے۔عدالتی سوال پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ شاید ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا 3 سالہ مدت کے بعد آرمی چیف فوج میں رہتا ہے یا گھر چلاتا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پر ریٹائر ہوتے ہیں، ہم قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں تو رات تک دلائل دینے کیلئے بھی تیار ہوں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وفاقی حکومت ریٹائرمنٹ کے بعد ہی ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے۔اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دوران جنگ ممکن ہے کہ افسران کو ریٹائرمنٹ سے روک جاتا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں۔
حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی نہیں ہوتی،اس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آئینی عہدے پر تعیناتی میں توسیع آئین کے تحت نہیں، عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی، بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔اس موقع پر عدالت عظمیٰ نے مذکورہ معاملے پر سماعت میں وقفہ کرتے ہوئے ایک بجے تک ملتوی کیا ۔
وقفہ کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہاکہ ہم آپ کو اجازت دیتے ہیں جو بولنا چاہتے ہیں بولیںجس پر چیف جسٹس نے کہاکہ پھر ہم قانونی نکات پر بات کرینگے،ہم آپ کے دلائل کی تعریف کرتے ہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آپ کے تمام سوالات کے جوابات دیتا رہوں گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک طریقہ یہ ہے کہ آپ کو دلائل مکمل کرنے دیں، پھر قوانین پڑھیں، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ آپ پہلے قانون پر بات کر لیں، پھر اپنا موقف دیں۔
اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت کے ہرسوال کا جواب دوں گا۔ اٹارنی جنرل انور منصور کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ٹکڑوں میں جواب کا کوئی فائدہ نہیں، آرمی ایکٹ کو سمجھے بغیر ہمیں دلائل کیسے سمجھ آئیں گے، آپ کا ایک ایک لفظ سن کر سمجھنے کی کوشش کریں گے۔اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ان رولز اور ریگولیشن کو پڑھتے ہیں، پاک فوج کے تقسیم ہند سے پی کے کے رولز کو روزانہ کی روشنی میں دیکھتے ہیں، اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیسے عدالت کہے گی ویسے کہیں گے۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو کہنا ہے کہیں ایک ایک لفظ نوٹ کر رہے ہیں۔اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کیا ہوگی؟ آرمی چیف کی مدت تعیناتی پر آئین خاموش ہے، دوبارہ آرمی چیف کی تعیناتی کس قانون کے تحت ہوگی، کیا ریٹائرمنٹ کے بعد ریٹائرڈ جنرل کو دوبارہ آرمی چیف بنایا جا سکتا ہے؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کی صوابدید ہے۔
اصل مسئلہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کا ہے، اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی آرٹیکل 243 کے تحت ہوتی ہے، مدت مقرر نہ ہو تو کیا آرمی چیف تاحیات عہدے پر رہیں گے، 1947 سے تعیناتی کی یہی روایت رہی ہے، عوام کو آگاہ کروں گا تعیناتی کی مدت کا تعین کیسے ہوتا ہے؟۔اٹارنی جنرل کی بات پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ قانون کی عدالت ہے، یہاں شخصیات معنی نہیں رکھتیں، جو کام قانونی طور پر درست نہیں اسے کیسے ٹھیک کہہ سکتے ہیں۔
اگر قانون کے مطابق درست نہیں تو پھر ہم فیصلہ دیں گے، اس پر انور منصور خارن نے جواب دیا کہ بعض اوقات سختی سے چھڑی ٹوٹ جاتی ہے،عدالت کو قانون پر اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کو اتنا سخت نہیں ہونا چاہیے کہ اس میں کوئی لچک نہ ہو، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے قانون سے دلائل کا آغاز کریں۔عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں فوج کے قانون کو پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں۔
ایکٹو سروس سے متعلق سیکشن 2 پڑھ کر سناؤں گا، جنرل قوم کا افسر ہوتا ہے، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے سامنے سوال چیف کا ہے جنرل کا نہیں، اس پر انور منصور نے کہا کہ عدالت کو میں تعیناتی کی دیگر مثالیں بھی پیش کروں گا۔اٹارنی جنرل نے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف آرمی کے کمانڈنگ افسر ہیں، اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف میں اسٹاف کا مطلب کیا ہے، خالی چیف آف آرمی بھی تو ہوسکتا تھا۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس بارے میں مجھے علم نہیں۔
پڑھ کر بتا سکتا ہوں، کمانڈنگ افسر وہ ہوتا ہے جو آرمی کے کسی الگ یونٹ کا سربراہ ہو۔عدالت میں دلائل دیتے ہوئے اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی ایکٹ کا ہر سیکشن الگ یونٹ، پلٹون کو ظاہر کرتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وہ جو کہتے ہیں کہ فوج میں کمیشن میں گیا تو کیا ان کو کوئی ذمہ داری ملتی ہے ؟ اس پر اٹارنی جنرل انور منصور نے بتایا کہ کمیشن آرٹیکل 243 کے تحت ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں تو لکھا ہے کہ جونئیر کمیشنڈ افسر کے علاوہ ہے، جس پر جواب دیا گیا کہ نہیں ایسا نہیں ہے۔
ساتھ ہی جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ ہمیں جونیئر کمیشنڈ افسر پر کیوں لے گئے، اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جونیئر کمیشنڈ افسر کیپٹن بھی ہوتا ہے۔اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کمیشنڈ افسر کی تعریف نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ تعریف ہے، اعلیٰ افسر کمیشنڈ افسرکہلاتے ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کہیں گربڑ ہے ہم سمجھنے کی کوشش کررہے ہیں۔
عدالتی ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ادارے کا ایک باقاعدہ نظام ہے، سپاہی کا افسر لانس نائیک ہوگا، اس طرح پورے ادارے کا نظام ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ کی تعریف ختم ہوگئی ہے تو آگے بڑھیں۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں سیکشن 16 پڑھ کر سناؤں گاجس پر چیف جسٹس نے کہا کہ سیکشن 16 ملازمت سے برخواستگی سے متعلق ہے، اس پر انور منصور نے جواب دیا کہ آرمی چیف کسی کو بھی نوکری سے نکال سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ کیا وفاقی حکومت بھی کسی کو نوکری سے نکال سکتی ہے، اس پر انہیں جواب دیا گیا کہ آرمی چیف کو محدود مگر وفاقی حکومت کو مکمل اختیارات ہیں، جونیئر اور چھوٹے افسران کو آرمی چیف نکال سکتے ہیں، عمر کا بھی تعین ہے کہ کون کس عمر میں کیسے ریٹائر ہوگا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق تمام افسران، جونیئرکمیشن اور وارنٹ افسران پر ہوتا ہے۔
اسی پر جسٹس منصور نے دوبارہ پوچھا کہ سپہ سالار کو چیف آف آرمی اسٹاف کہا جاتا ہے، لفظ اسٹاف کا کیا مطلب ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اسٹاف کا مطلب شاید آرمی میں کام کرنے والے تمام لوگ ہیں۔اس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی میں کئی سویلین لوگ بھی کام کرتے ہیں، جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اسٹاف کا سربراہ حاضر سروس شخص ہی ہوسکتا ہے۔دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت کا انحصار سیکشن 255 پر ہے جو آرمی افسر کیلئے ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی افسر وہ ہے جو کمیشنڈ افسر ہو۔انہوں نے کہا کہ آرمی چیف کو کسی بھی افسر کی برطرفی کا اختیار ہے۔اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں کسی افسر کی مدت تعیناتی کا ذکر نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ مدت تعیناتی میں توسیع کا ذکر رولز میں ہے۔اٹارنی جنرل کے جواب پر چیف جسٹس نے کہا کہ رولز ہمیشہ ایکٹ اور قانون کے تحت ہی بنتے ہیں۔
ایکٹ میں ایسا کچھ نہیں کہ کسی بہت قابل افسر کو ریٹائر ہونے سے روکا جائے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ کیا آرمی ایکٹ میں کسی بھی افسر کی مدت سروس کا ذکر ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ مدت ملازمت کا ذکر رولز میں ہے ایکٹ میں نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں مدت اور دبارہ تعیناتی کا ذکر نہیں، آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا بھی ذکر ایکٹ میں نہیں، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سیکشن 176 میں قواعد بنانے کا اختیار موجود ہے۔
فوج کوئی جمہوری ادارہ نہیں ہے، دنیا بھر میں فوج کمانڈ پر ہی چلتی ہے۔اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں آرمی ایکٹ کے چیپٹر ون ٹو اور تھری کو پڑھوں گا۔اس موقع پر چیف جسٹس نے آرمی افسر کے حلف نامے سے متعلق ریمارکس دئیے کہ فوجی حلف اٹھاتے ہیں کہ ملک اور آئین کا وفادار رہوں گا، فوج کا حلف ہے کہ جہاں ضرورت ہوئی ملک کیلئے جان دوں گا، ایک حلف آئین میں بھی دیا گیا ہے۔
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین میں دیا گیا حلف فوجی افسر کمیشن کے وقت اٹھاتے ہیں۔اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ افسر کے حلف میں ہے کہ اگر جان دینی پڑی تو دے گا، یہ بہت بڑی بات ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں خود کو کسی سیاسی سرگرمی میں ملوث نہیں کروں گا،یہ جملہ بھی حلف کا حصہ ہے، بہت اچھی بات ہے کہ اگر سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیلڈ مارشل سمیت کسی بھی آرمی افسر کو حکومت ریٹائرڈ کرسکتی ہے۔
حکومت رضاکارانہ طور پر یا پھر جبری طور پر ریٹائر کرسکتی ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس میں کسی مدت کا ذکر نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بار بار مدت کا ذکر آرہا ہے تو آپ مدت کے بارے میں بتادیں تاہم اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ چیف آف آرمی اسٹاف فوجی معاملات پر حکومت کا مشیر بھی ہوتا ہے، فوج کے نظم و نسق کی ذمہ داری بھی آرمی چیف پرعائد ہوتی ہے، ہم فوج کے سارے ریگولیشنز کو دیکھ رہے ہیں تاکہ آپ کے دلائل کو سراہ سکیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ جب قانون میں ریٹائرمنٹ کا لفظ آتا ہے تو اس میں مدت کا بھی تعین ہوتا ہے، ریٹائرمنٹ کی مدت کے بارے میں بھی بتائیں، پوچھا گیا کہ کیا ایکٹ 262 سی میں ریٹائرمنٹ کا ذکر ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جب سروس کی مزید ضرورت نہیں ہوتی تو ریٹارمنٹ ہوتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت ریٹائرمنٹ کو محدود اور معطل کر سکتی ہے، ریٹائرمنٹ محدود کرنے کا مطلب ہے اگلے حکم نامے تک کام جاری رکھا جائے۔
ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی طور پر ہوتی ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ریٹائرمنٹ محدود یا معطل، مخصوص حالات میں کی جا سکتی ہے، ہو سکتا ہے ماہرین یا تجربہ کار افسران کو جنگ کے دوران دوبارہ بلایا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف دوران جنگ افسران کو ریٹائرمنٹ سے روک بھی سکتے ہیں، اسی دوران اٹارنی جنرل نے کہا کہ جرم کرنے والوں کو سیکشن 255 کے تحت نہیں بلایا جاتا، جرم کرنے والے افسران پر آرمی ایکٹ کی سیکشن 292 کا اطلاق ہوتا ہے، ایکٹ میں واضح ہے کہ ریٹائرڈ افسر کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق اس موقع پر عدالت نے فوج کے سزا یافتہ تینوں سابق اعلیٰ افسران کی تفصیلات طلب کرلیں اور چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ تفصیلات دیکھ کر جائزہ لیں گے کہ سزا کس قانون کے تحت ہوئی۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ قواعد میں یہ نہیں لکھا کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل ہو سکتی ہے، 4 اسٹار جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں، لیفٹیننٹ جنرل تک ریٹائرمنٹ کی عمر موجود ہے، آرمی چیف ایک عہدہ ہے جس کا رینک ایک جرنل ہوتا ہے۔
اٹارنی جنرل کی بات پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سیکشن 255 میں وفاقی حکومت کا ذکر ہے، آرمی چیف کو وفاقی حکومت نہیں وزیراعظم کی سفارش پر صدر تعینات کرتے ہیں، جسے تعینات وفاقی حکومت نے نہیں کیا اسے حکومت چھیڑ بھی نہیں سکتی، آرمی چیف پر سیکشن 255 کا اطلاق نہیں ہوتا۔دو ران سماعت اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرمی چیف کی تعیناتی اور مدت 1975 کے کنونشن کے تحت ہے۔
نجی ٹی وی کے مطابق دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے آرمی چیف کے وکیل فروغ نسیم سے دلچسپ مکالمہ کیا اور کہا کہ فروغ نسیم آپ کہہ رہے ہیں آرمی چیف کل ریٹائر ہوجائیں لیکن اٹارنی جنرل کہتے ہیں جنرل ریٹائر ہی نہیں ہوتا، آپ کے مطابق کسی سابق فوجی افسر کو بھی آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟ اس موقع پر ایک بار پھر سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کردیا۔وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو اٹارن جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف کی مدت 28 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔
اس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 28 نومبر کو ختم نہیں ہو رہی، وہ 29 نومبر کو تعینات ہوئے، مطلب آرمی چیف کی مدت 28 اور 29 کی درمیانی شب ختم ہو رہی ہے،پھر تو اس کا فوری فیصلہ ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ انتہائی اہمیت کا مقدمہ ہے، فوج کا احترام ہے، فوج کے سربراہ بارے ابہام نہیں ہونا چاہیے،ملک میں ہیجانی کیفیت نہیں ہونی چاہیے، ہم اس کیس کا فیصلہ کریں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرمی چیف کی دوبارہ تعیناتی کی ہے لیکن نوٹیفکیشن توسیع کا ہے، کسی نے پڑھنے کی زحمت بھی نہیں کی، وزیراعظم نے سمری اور ایڈوائز تعیناتی کی بھیجی اور نوٹیفکیشن توسیع کا ہو گیا۔اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ وزارتی معاملات ہیں، چیف جسٹس پاکستان نے جواب دیا کہ جائیں دو دن ہیں کچھ کریں، ساری رات اکٹھے ہوئے اور کابینہ کے دو سیشن ہوئے، ہم نے سوچا تھا کہ اتنے دماغ بیٹھے ہیں۔
اتنے غور کے بعد یہ چیز لے کر آئے ہیں ،ہمارے لیے تکلیف کی بات ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ وزارت قانون کیا ایسے قانون بناتی ہے، اسسٹنٹ کمشنر کو ایسے تعینات نہیں کیا جاتا جیسے آپ آرمی چیف کو تعینات کر رہے، آپ نے آرمی چیف کو شٹل کاک بنا دیا ہے۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ اگر آرمی چیف کی توسیع نہ ہوئی تو ادارہ سربراہ سے محروم ہو جائیگا جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ہم آپ کو کل جمعرات تک کا وقت دے رہے ہیں حل نکال لیں، بصورت دیگر ہم نے آئین کا حلف اٹھایا ہے اور ہم آئینی ڈیوٹی پوری کریں گے۔اس موقع پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ صدر وزیر اعظم کی ایڈوائس اور نوٹیفکیشن جاری کرنے والوں کی ڈگریاں چیک کروائیں۔بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل جمعرات کی صبح تک ملتوی کردی۔