اسلام آباد (این این آئی)چیف جسٹس پاکستان نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ تمام گواہوں کو خبر ہوجائے اگر بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہوگا ۔ پیر کو سپریم کورٹ میں جھوٹے گواہ پولیس کانسٹیبل خضر حیات کیخلاف کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی۔ کیس کی سماعت کے دوران پولیس اے ایس آئی خضر حیات عدالت میں پیش ہوا،
عدالت نے خضرحیات کو ایک مقدمے میں جھوٹی گواہی دینے پر طلب کیا تھا۔چیف جسٹس پاکستان نے گواہ پر برہمی کا اظہار کیا اور مکالمہ کیا کہ آپ وحدت کالونی لاہور میں کام کررہے تھے، نارووال میں قتل کے مقدمے کی گواہی دے دی، حلف پر جھوٹا بیان دینا ہی غلط ہے، اگر انسانوں کا خوف نہیں تھا تو اللہ کا خوف کرنا چاہیے تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ چار مارچ دو ہزار انیس کی تاریخ یاد رکھیں، آج چار مارچ سے سچ کے سفر کا آغاز کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ تمام گواہان کو جاکر بتادیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ذرا سی بھی جھوٹی گواہی پر پورے بیان کو جھوٹا تصور کیا جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اسلام بھی یہی کہتا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ گواہ حلف اٹھا کر کہتے ہیں جھوٹ بولوں تو مجھ پر اللہ کا قہر نازل ہو، شاید اللہ کا قہر نازل ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔چیف جسٹس نے گواہ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق آپ چھٹی پر تھے، پولیس والے ہوکے آپ نے جھوٹ بولا، ہائیکورٹ نے بھی کہا کہ یہ جھوٹا ہے۔عدالت کے اظہارِ برہمی پر خضر حیات کے وکیل نے مؤقف اپنایاکہ عید کا دن تھاجس پر چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ عید کے دن جھوٹ بولنے کی اجازت ہوتی ہے؟۔معزز چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون کہتا ہے جھوٹی گواہی پر عمرقید ہوتی ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ جس کا دل کرتا ہے گواہ بن جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے گواہ خضرحیات سے مکالمہ کیا کہ کیوں جھوٹی گواہی دی؟ گواہ نے کہا کہ مجھے موقع دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ موقع دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ سینکڑوں میل دور وقوعے کے چشم دید گواہ کیسے بن گئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ پولیس میں ہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ انسانوں کا نہیں تو کم از کم اللہ کا ہی خوف کر لیتے۔چیف جسٹس نے کہاکہ سارا نظام عدل گواہی پر کھڑا ہے، پولیس والے ہو کر جھوٹا بیان دیا عام لوگ کیا کریں گے۔چیف جسٹس نے کہاکہ بہت ہوچکا، ہم انشاء اللہ اب آج سے شروعات کررہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کسی وقوعے کے ایک پہلو کی جھوٹی گواہی سے پوری گواہی جھوٹی تصور ہوگی۔چیف جسٹس نے قرآن مجید کا حوالے دیتے ہوئے کہاکہ حق آگیا باطل مٹ گیا، بیشک باطل مٹنے والا ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ جھوٹ چلتا رہا تو نظام عدل نہیں چل سکتا۔
چیف جسٹس نے کہاکہ اب ذرا سا جھوٹ بولنے سے پوری گواہی صفر ہوجائیگی۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ہم جھوٹ بولنے کا لائسنس نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ71 سال ضائع کر دیئے گئے، اب یہیں سے آج ہی سے شروعات کرتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ انصاف مانگنے والے سچ بھی بولیں۔عدالت نے پولیس کانسٹیبل خضر حیات کیخلاف ٹرائل کورٹ کو کارروائی کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ نارووال ملزم کیخلاف جھوٹی گواہی دینے کا مقدمہ چلائے۔ عدالت نے مقدمہ نمٹا دیا۔ یاد رہے کہ محمد الیاس پر 2007 میں ضلع ناروال کے علاقے میں آصف نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا ۔ ٹرائل کورٹ نے محمد الیاس کو سزائے موت سنائی تھی۔ہائیکورٹ نے محمد الیاس کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کردیا تھا۔سپریم کورٹ نے ملزم کو بری کردیا تھا۔