پیر‬‮ ، 30 ستمبر‬‮ 2024 

سپریم کورٹ ‘ شریف خاندان اور اسحاق ڈار کی پاناما کیس میں تمام نظر ثانی اپیلیں مسترد

datetime 15  ستمبر‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد (آئی این پی )سپریم کورٹ نے شریف خاندان اور اسحاق ڈار کی جانب سے دائر پاناما کیس میں نظر ثانی کی تمام اپیلوں کو خارج کرتے ہوئے نوازشریف کی ناہلی اور ا ن کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے سمیت اپنا 28جولائی کا فیصلہ برقرار رکھاہے ۔جمعہ کو سپریم کور ٹ میں جسٹس آصف

سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید ،جسٹس اعجاز الاحسن،جسٹس گلزاراحمد اورجسٹس اعجاز افضل خان پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے اپیلوں کی سماعت کی جس میں شریف خاندان کی جانب سے پاناما نظر ثانی اپیلوں پر فریقین نے دلائل مکمل کئے ۔ سماعت کے دوران وکیل سلمان اکرم راجانے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ریفرنس فائل ہونے سے کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بنیادی حقوق متاثر ہوں گے۔جسٹس عظمت سعیدنے کہا کہ یقین دلاتے ہیں کہ شفاف ٹرائل پر سمجھوتا نہیں ہو گا۔سلمان اکرم راجا جے آئی ٹی رپورٹ میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا فلیٹ سے تعلق سامنے نہیں آیا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یہ بات درست نہیں ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا کوئی تعلق نہیں،برٹش ورجن آئی لینڈ نے مریم نواز کو مالک قرار دیا۔سلمان اکرم راجا نے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈصفدر نے بطور گواہ ٹرسٹ ڈیڈ پر دستخط کیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ مریم نواز نے پہلے لندن فلیٹ کے

تعلق سے انکار کیا تھا،جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق مریم نواز لندن فلیٹ کی بینیفیشل مالک ہے،معاملے کی تحقیقات ہونے دی جائے۔نواز شریف کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجانے کہا کہ انکوائری ہونی چاہیے تھی ریفرنس کا کیوں کہہ دیا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے

ٹرسٹ ڈیڈ سے متعلق بیان دیا ہے،کیپٹن صفدر کا کچھ نہ کچھ تعلق ضرور ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر مریم نواز کے شوہر ہیں، یہ مناسب نہ ہوتا کہ ہم اس مرحلے پر کوئی آبزرویشن دے دیتے۔سلمان اکرم راجا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا اور مشاورت کے بعد

مختصر وقت میں فیصلہ سنادیا جس میں سابق وزیراعظم نوازشریف ، ان کے بچوں ، داماد ، کیپٹن (ر) محمد صفدر اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے دائر پاناما کیس میں نظر ثانی اپیلوں کو خار ج کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنا یا جبکہ تفصیلی فیصلہ بعد میں سنایا جائیگا ۔ فیصلے کے مطابق نواز

شریف نااہل رہیں گے ، میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز اور صاحبزادی مریم نواز اور اسحاق ڈار کوبھی نااہل قرار دیا گیا تھا جبکہ تمام افراد کیخلاف نیب میں ریفرنس دائر کئے جائینگے ،اس کے علاوہ نیب کو حدیبیہ پیپرز ملز کیس میں بھی ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیاگیا ہے۔

قبل ازیں شیخ رشید نے حدیبیہ کیس سے متعلق درخواست پر دلائل دیئے۔ جسٹس آصف سعید نے سوال کیا کہ شیخ صاحب کیا حدیبیہ کیس پر اپیل کا حکم دیا تھا؟ اس پر شیخ رشید نے کہا کہ نیب نے سات روز میں اپیل دائر کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اس پر عدالت نے پراسیکیوٹر نیب کو فوری طلب کرلیا۔

اس پر جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ ادارہ یقین دہانی کرادے تو حکم ہوجاتا ہے۔ شیخ رشید نے اس پر کہا کہ نیب سے متعلق خبریں ہیں کہ اپیل دائر نہیں کرنا چاہتا۔ نیب اور ایف آئی اے میں درباریوں کو لگایا جاتا ہے یہ ادارے ٹھیک ہوجائیں تو آدھا ملک ٹھیک ہوجائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے عدالت کو بتایا کہ

فیصلہ کرلیا گیا ہے کہ حدیبیہ پیپر ملز کیس پر اپیل دائر کرینگے جس کے بعد عدالت نے شیخ رشید کا معاملہ نمٹا دیا۔ نظرثانی کی یہ اپیلیں سابق وزیراعظم نوازشریف ، ان کے صاحبزادوں حسین ، حسن نواز ، صاحبزادی مریم نواز ، داماد کیپٹن صفدر اور وزیرخزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے دائر کی تھیں جن میں

سپریم کورٹ سے اپنے28جولائی کے فیصلے پر نظرثانی کی استدعا کی گئی تھی ۔سابق وزیراعظم نواز شریف نے پاناما کیس کے فیصلے پر نظرثانی کیلئے پہلی درخواست 15 اگست کو دائر کی تھی جس میں انہوں ںے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ جس بنیاد پر انہیں نااہل کیا گیا وہ کاغذات نامزدگی میں ظاہر کئے

گئے تھے، لہذا سپریم کورٹ اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔بعد ازاں 9 ستمبر کو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے نظر ثانی کی ایک اور اپیل دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ 12 ستمبر کو بینچ کے سامنے صرف 3 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں مقرر کی گئی ہیں، ان

کے ساتھ 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں بھی سماعت کے لئے مقرر کی جائیں، درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی تھی کہ دائر کردہ تمام اپیلوں کو ایک ہی بینچ کے سامنے مقرر کیا جائے۔اس کے ساتھ ساتھ وزیراعظم کے بچوں حسین نواز، مریم نواز، حسن نواز اور داماد کیپٹن صفدر کی جانب

سے 25 اگست کو دائر کی گئی نظرثانی اپیلوں میں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی نے انصاف کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا جبکہ عدالتی فیصلے میں جے آئی ٹی رپورٹ پر اعتراضات کو زیر غور نہیں لایا گیا ہے۔ پاناما عملدرآمد میں سماعت کرنے والے ان تین ججز کو جے آئی ٹی رپورٹ پر فیصلہ نہیں کرنا

چاہیے تھا۔اسی طرح کیس کے فریق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے بھی نظرثانی کی اپیل دائر کی گئی تھی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالت عظمی ٰکے 28 جولائی کے فیصلے میں سقم موجود ہیں، عدالت نے مکمل ریکارڈ نہیں دیکھا ہے۔ لہذا عدالت عظمی درخواست پر نظرثانی کرتے ہوئے

28 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے اور اس حوالے سے دائر درخواستیں بھی خارج کردے۔جن کی سماعت کی تاریخ 12 ستمبر مقرر کی گئی تھی، چند دن کی سماعت کے بعد عدالت نے 15ستمبر بروز جمعہ اپنا فیصلہ سنایا ۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے 28جولائی کے پانچ ججوں کے متفقہ فیصلے

میں نواز شریف کو وزیراعظم تاحیات نااہل قرار دیا تھا ، میاں نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز اور صاحبزادی مریم نواز اور اسحاق ڈار کوبھی نااہل قرار دیا گیا تھا جبکہ تمام افراد کیخلاف نیب میں ریفرنس بھی بھجوانے کا حکم دیا تھا ۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ وزیراعظم فوری

عہدہ چھوڑ دیں، وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے، غلط معلومات فراہم کی گئیں، صدر مملکت جمہوری تسلسل کو یقینی بنائیں، وزیراعظم اور بچوں کیخلاف ریفرنس 6 ہفتے میں دائر کیا جائے، ہل میٹل اور عزیزیہ مل پر بھی ریفرنس دائر کیا جائے، ایک جج فیصلے پرعملدرآمد کی نگرانی کرے گا، جے

آئی ٹی ارکان کیخلاف کارروائی نہ کی جائے۔ اس بینچ میں بھی جسٹس آصف سعید کھوسہ، جسٹس اعجاز افضل، جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے پاناما عملدرآمد کیس کا فیصلہ 21 جولائی کو محفوظ کیا تھا۔

واضح رہے کہ 3 اپریل 2016 کو پاناما پیپرز کا معاملہ صحافیو ں کی ایک بین الاقوامی تنظیم نے اٹھایا تھا۔ انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے ) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن،

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان سمیت وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین نواز کئی آف شورکمپنیوں کے مالک ہونے کا انکشاف کیاگیا تھا یا پھر وہ رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے۔ بعدازاں اس حوالے سے عمران خان، سراج الحق اور شیخ رشید احمد سمیت دیگر افراد نے سپریم کورٹ

سے رجوع کیا۔ اس پر اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جما لی کی سربراہی میں پہلی مر تبہ یکم نومبر 2016 کو پاناما کیس کی سماعت کیلئے بینچ تشکیل دیا گیا، کچھ روز سماعت کے بعد سابق چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ کی وجہ سے یہ بینچ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد نئے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا جس نے کیس کی سماعت کی اور سماعت مکمل کر نے کے بعد 20 اپریل 2017 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ پانچ رکنی بینچ کے تین ججوں نے پاناما پیپرز کی مزید تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی کی تشکیل کا فیصلہ سنایا جبکہ دو ججو ں جسٹس

آصف سعید خان کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد نے وزیر اعظم کو صادق اور امین قرارنہ دیتے ہوئے نا اہل قرار دیا۔ تین رکنی بینچ نے ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈی جی واجد ضیا کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم(جے آئی ٹی) تشکیل دی۔ اس میں نیب، سٹیٹ بینک، ایس ای سی پی، آئی ایس آئی، ایم آئی

کے نمائندے شامل تھے۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم نوازشریف، وزیراعلی شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، چیئرمین نیب، صدر نیشنل بینک، اس وقت کے چیئرمین ایس ای سی پی کو طلب کر کے ان کے بیانات ریکارڈ کیے تھے۔ جے آئی ٹی نے وزیر اعظم کے صاحبزادے حسین نواز کو 6 بار جبکہ

حسن نواز کو 3 بارطلب کیا تھا۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو بھی طلب کیا گیا تھا۔ جے آئی ٹی نے 63 روز میں تحقیقات مکمل کر کے 10جولائی کو رپورٹ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کو پیش کی تھی۔ جے آئی ٹی نے 10 جلدوں پر مشتمل اپنی رپورٹ میں

وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائی۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فریقین کے اعتراضات 17 جولائی سے سنے اور پانچ روز مسلسل سماعت کے بعد 21 جولائی کو فیصلہ محفوظ کر لیا تھا جو بعد

میں سنایا گیا تھا جس میں نوازشریف کو بطور وزیراعظم نااہل قرار دیاگیا تھا۔

موضوعات:



کالم



ہرقیمت پر


اگرتلہ بھارت کی پہاڑی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت…

خوشحالی کے چھ اصول

وارن بفٹ دنیا کے نامور سرمایہ کار ہیں‘ یہ امریکا…

واسے پور

آپ اگر دو فلمیں دیکھ لیں تو آپ کوپاکستان کے موجودہ…

امیدوں کے جال میں پھنسا عمران خان

ایک پریشان حال شخص کسی بزرگ کے پاس گیا اور اپنی…

حرام خوری کی سزا

تائیوان کی کمپنی گولڈ اپالو نے 1995ء میں پیجر کے…

مولانا یونیورسٹی آف پالیٹکس اینڈ مینجمنٹ

مولانا فضل الرحمن کے پاس اس وقت قومی اسمبلی میں…

ایس آئی ایف سی کے لیےہنی سنگھ کا میسج

ہنی سنگھ انڈیا کے مشہور پنجابی سنگر اور ریپر…

راشد نواز جیسی خلائی مخلوق

آپ اعجاز صاحب کی مثال لیں‘ یہ پیشے کے لحاظ سے…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!(آخری حصہ)

لی کو آن یو اہل ترین اور بہترین لوگ سلیکٹ کرتا…

اگر لی کوآن یو کر سکتا ہے تو!

میرے پاس چند دن قبل سنگا پور سے ایک بزنس مین آئے‘…

سٹارٹ اِٹ نائو

ہماری کلاس میں 19 طالب علم تھے‘ ہم دنیا کے مختلف…