مجھے چند دن قبل دوبئی جانے کا اتفاق ہوا‘ ملک ریاض صاحب کی طبیعت خراب تھی‘ میں عیادت کے لیے ان کے گھر گیا او ر ان سے لمبی گفتگو کا موقع ملا‘ یہ اپنے ماضی کے قصے سناتے رہے‘ انہوں نے کس طرح زندگی کے ابتدائی 40 سال غربت اورسٹرگل میں گزارے‘ ٹھیکے داری کے دوران کیا کیا ہوتا رہا اور پھر پراپرٹی کے کاروبار میں کیسے آئے؟انہوں نے بتایا میں نے جب بحریہ ٹائون کے لیے زمین کی پہلی رجسٹری کرائی تو چودھری تنویرآئے اور بتایا’’ ملک صاحب مبارک ہو انتقال ہو گیا‘‘ مجھے 40 سال کی عمر تک زمین کے انتقال کے بارے میں علم نہیں تھا‘
میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا ’’کون فوت ہو گیا؟‘‘ میں نے وہاں سے کام شروع کیا‘ اللہ تعالیٰ نے ہاتھ پکڑ لیا اور میں یہاں تک پہنچ گیا‘ ان کا کہنا تھا میں نے پوری زندگی پاکستان میں کام کیا‘ میرا پورا خاندان پاکستان میں تھا‘ میری بیٹی کا بیٹا سپیشل تھا‘ مجھے بچے کے علاج کے لیے اسے لندن شفٹ کرنا پڑا‘ یہ میرے خاندان کی پہلی بچی تھی جس نے ملک سے باہر رہنا شروع کیا‘میرا بیٹا علی خاندان کا دوسرا فرد تھا جسے باہر بھجوانا پڑا‘ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے علی پر قتل کی ایف آئی آر کرا دی تھی لہٰذا میں اپنی واحد نرینہ اولاد کو بچانے کے لیے اسے دوبئی شفٹ کرنے پر مجبور ہو گیا‘ میں 2023ء تک خود پاکستان میں رہا اور وہیں بزنس کرتا رہا‘ 2013ء میں ن لیگ کی حکومت آئی تو میرے لیے اسلام آباد اور راولپنڈی میں کام مشکل ہو گیا‘مجھے مجبوراً کراچی جانا پڑ گیا‘
میں نے وہاں بنجر اور ویران جگہ آباد کرنا شروع کر دی‘میرا سوال یہ ہے یہ زمین اگراتنی ہی قیمتی تھی تو پھر اسے کسی دوسرے نے مجھ سے پہلے آباد کیوں نہیں کیا؟ وہ پورا علاقہ بیابان تھا لیکن جب وہ آباد ہو گیا تو مجھے مجرم بنا دیا گیا‘ جسٹس ثاقب نثار نے مجھ پر460ارب روپے جرمانہ عائد کر دیا‘ میں نے یہ بھی قبول کر لیا لیکن یہاں دو سوال ہیں اگر میں مجرم تھا تو میرے علاوہ وہاں دوسری ہائوسنگ سوسائٹیاں بھی ہیں‘آپ نے انہیں جرمانہ کیوں نہیں کیا؟ دوسرا اگر مجھے کام نہیں کرنے دیا جائے گا تو میں جرمانہ کہاں سے ادا کروں گا‘ میرا کام بند کرا کر مجھے ادائیگی کا حکم دیا گیا‘ کیا یہ ممکن تھا؟ میں آج بھی یہی کہتا ہوں مجھے کام کرنے دیںتاکہ میں اپنا جرمانہ ادا کر سکوں۔
ملک ریاض صاحب کا کہنا تھا‘ مجھ سے القادر یونیورسٹی کے لیے زمین مانگی گئی‘ میں نے دے دی‘ میں نے اس سے قبل حیدر آباد میں الطاف حسین کو بھی یونیورسٹی بنا کر دی تھی اور کراچی میں اقراء یونیورسٹی بھی‘ مجھ سے جب بھی کسی شخص نے مسجد‘ مدرسے‘ سکول‘ ہسپتال اور یونیورسٹی کے لیے عطیہ مانگا میں نے دے دیا‘ مجھ سے آج بھی کوئی شخص یا ادارہ ویلفیئر کے لیے زمین یا رقم مانگے گا اگر میرے پاس ہوئی تو میں دے دوں گا‘شہباز شریف اسلام آباد میں دانش یونیورسٹی بنا رہے ہیں‘ میں انہیں بھی پوری یونیورسٹی بنا کر دے دیتا ہوں‘ کیا مسئلہ ہے‘ اللہ نے مجھے دیا ہے‘ میں اس کے راستے میں ہر وقت دینے کے لیے تیار ہوں۔ باقی رہ گئے 190 ملین پائونڈز تو یہ میری رقم تھی‘میرا بیٹا دوبئی میں پراپرٹی کا کام کرتا تھا‘ یہ سرمایہ اس نے کمایا اور پراپر چینل سے اسے دوبئی سے لندن شفٹ کیا‘ عمران خان کے دور میں شہزاد اکبر نے این سی اے کو خط لکھ کر میری یہ رقم ہولڈ کرا دی‘
میں آج تک کسی سرکاری عہدے پر نہیں رہا‘میں اگر وزیر ہوتا‘ گورنر‘ وزیراعظم یا صدر ہوتا تو آپ مجھ پر کرپشن کا الزام لگا سکتے ہیں‘ میں پرائیویٹ شخص ہوں‘ بزنس مین ہوں ‘ ملک کے تمام بڑے بزنس مینوں کی رقم ملک سے باہر ہے‘کیا آپ نے کبھی ان سے پوچھا؟ مجھ سے صرف یہ غلطی ہوئی میں یہ رقم پاکستان لے گیا اور اسے جرمانے میں ایڈجسٹ کرا لیا‘ مجھے چاہیے تھا میں اسے لندن میں رہنے دیتا‘ وکلاء کو فیس دیتا رہتا اور کسی وقت اسے دوبئی یا کسی دوسرے ملک میں شفٹ کرا لیتا ‘ یہ میری غلطی تھی اور مجھے اس کی سزا ملی۔میں نے ان سے پوچھا آپ کو دوبئی میں کام کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ان کا جواب تھا ہماری پوری ریاست یو اے ای کے نظام‘ ایمان داری اور پرفارمنس کی تعریف کرتی ہے‘ یہ پاکستان کو دوبئی بنانا چاہتی ہے‘ آپ پاکستان کے کسی شخص سے پوچھ لیں کیا دوبئی میں کوئی چور یا فراڈیا کاروبار کر سکتا ہے؟ اس کا جواب نہیں میں ہو گا‘ اس ٹرانسپیرنٹ دوبئی نے مجھے زمین دی اور پراجیکٹ کے لیے معاونت اور سرمایہ بھی‘ میں اگر چور ہوں یا میں نے پاکستان میں فراڈ کیا تو پھر دوبئی حکومت مجھ پر اعتماد کیوں کر رہی ہے؟ یہ سسٹم اگر شفاف ہے تو پھر میں یہاں کیسے سروائیو کروں گا؟ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ کے دوبئی پراجیکٹ کی وجہ سے پاکستان کا سرمایہ دوبئی شفٹ ہو رہا ہے‘
کیا یہ ملک دشمنی نہیں؟ ان کا کہنا تھا ہمارے پراجیکٹ کا سٹوڈیو یا سنگل بیڈروم فلیٹ بارہ تیرہ کروڑ روپے کا ہے‘ پاکستانی اتنی مہنگی پراپرٹی کیسے خریدیں گے؟ ہماری مارکیٹ روسی‘ یوکرائنی‘ یورپی‘ امریکی اور انڈینز ہیں‘ پاکستان سے یہاں سرمایہ نہیں آئے گا‘ میں نے پوچھا کیوں؟ ان کا جواب تھا‘ یہ پراجیکٹ مہنگا ہے‘ دوسرا پاکستانی سرمایہ کار حکومت سے ڈرتے ہیں‘ ان کا خیال ہے ہم نے اگر ملک ریاض کے پراجیکٹ میں رقم لگائی تو ہمیں حکومت پکڑ لے گی‘ یہ ہمارے خریدار نہیں ہیں‘تیسرا ہمارا اکائونٹ ایسکرو (Escrow) ہے‘ اس میں کوئی شخص کیش جمع نہیں کرا سکتا چناں چہ منی لانڈرنگ یا کیپٹل فلائیٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘ میں نے پوچھا‘ آپ نے پراجیکٹ سے پہلے پاکستانی حکومت سے اجازت لی تھی؟ ان کا جواب تھا میرے ایک وزیر دوست نے ریاست سے باقاعدہ پوچھا تھا‘ میں نے اس کے کہنے پر دوبئی حکومت کو ہاں کی‘ ہم یہاں دس ہزار پاکستانیوں کو نوکریاں بھی دیں گے‘ یہ سرمایہ بھی پاکستان جائے گا اور اس کا ملک کو فائدہ ہو گا ۔ میں نے پوچھا ’’آپ کا اب کیا منصوبہ ہے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’میری عمر 75 سال ہو چکی ہے‘ شدید بیمار ہوں‘ دن اور رات تکلیف میں گزرتے ہیں‘ ڈاکٹرز اور ملازمین کے بغیر سروائیو نہیں کرسکتا‘ میرے پاس اللہ کے آسرے اور محنت کے علاوہ کچھ نہیں تھا‘ محنت کرتا رہا‘آج چھ لاکھ خاندان ہماری سکیموں میں رہ رہے ہیں اور دو لاکھ ملازم ہیں‘ پارکنسن کی وجہ سے یادداشت اور فوکس کم ہو رہا ہے‘
میرے پاس زیادہ وقت نہیں ‘ میری اب صرف ایک خواہش ہے آپ اسے آخری سمجھ لیں‘ میں نے جس کا جو دینا ہے میں وہ دینے کے لیے تیار ہوں‘ وہ کوئی فرد ہے یا ادارہ‘ میری طرف جو نکلتا ہے وہ حساب کرلے اور مجھ سے لے لے‘ ملک ریاض رکے اور کہا ’’میرے ساتھ جس جس شخص نے زیادتی کی میں نے اسے صدق دل سے معاف کر دیا‘ مجھ سے اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہو گئی تو میں اس سے معافی مانگتا ہوں‘‘۔
ملک صاحب کا کہنا تھا ’’مجھ پر اللہ نے کرم کیا چھ لاکھ لوگ ہماری ہائوسنگ سکیموں میں رہ رہے ہیں‘ دو لاکھ لوگ ہمارے پاس ملازم ہیں‘ ہم 68 کروڑ روپے تنخواہیں دیتے تھے‘ ہمارے ٹیکس کھربوں میں تھے‘ ہمارے دس ارب روپے کے ویلفیئر کے پراجیکٹس چل رہے تھے اور ہم نے 460 ارب روپے جرمانہ اور 372 ارب روپے کی لائبیلٹی ادا کرنی ہے‘کیا یہ ملک کا نقصان نہیںحکومت پوری دنیا کے سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہی ہے لیکن آپ کا اپنا سرمایہ کار باہر بیٹھا ہے‘
آپ پوری دنیا کے پراجیکٹس شروع کرانا چاہتے ہیں لیکن آپ اپنا کھربوں روپے کا پراجیکٹ بند کر رہے ہیں؟ لہٰذا میری درخواست ہے ہمارے چھ لاکھ ممبرز پر رحم کریں‘ہمیں کام کرنے دیں‘ ہم آج بھی ان تمام سرمایہ کاروں سے بہتر ڈیلیور کر سکتے ہیں جن کے لیے حکومت نے ایس آئی ایف سی بنا رکھی ہے‘ میں پاکستان واپس آنا چاہتا ہوں‘ وہاں دفن ہونا چاہتا ہوں اور دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے میرے ذمے جس کا جو بھی نکلتا ہے وہ ادا کرنا چاہتا ہوں‘ میں بدقسمتی سے عمران خان سے منسلک ایک کیس میں الجھ گیا‘یہ میری بدنصیبی تھی‘ میرا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں‘ عمران خان سے بھی اتنا ہی تعلق تھا جتنا نوازشریف اورآصف علی زرداری سے تھا‘ میں بزنس مین ہوں اور صرف کاروبار کرنا چاہتا ہوں‘ آپ اگر میرے جیسے لوگ نکال دیں گے تو پھر پیچھے کرپٹ بیوروکریٹس اور فائلوں کے علاوہ کیا بچے گا لہٰذا پلیز مجھے کام کرنے دیں‘‘۔