پیر‬‮ ، 28 اپریل‬‮ 2025 

27فروری 2019ء

datetime 29  اپریل‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ میں جموں سرینگر نیشنل ہائی وے پر لیتھاپورہ کے قریب انڈین فوج کے قافلے پر خود کش حملہ ہوا‘ اس حملے میں سی آئی بی ایف کے 40 جوان ہلاک ہو گئے‘ یہ حملہ عادل احمد ڈار نام کے ایک کشمیری نوجوان نے کیا تھا‘ بھارت نے فوری طور پر پاکستان پر الزام لگا دیا اور وہی صورت حال پیدا ہو گئی جو اس وقت سرحدوں پر دکھائی دے رہی ہے‘ بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا یہ حملہ مولانا مسعود اظہرکے جیش محمد نے کیا‘ پاکستان نے فوری طور پر بھارت کو آزادانہ تحقیقات کی پیش کش کر دی لیکن نہ صرف یہ آفر مسترد کر دی گئی بلکہ فوری جواب کی دھمکی بھی دے دی گئی‘ وزیراعظم عمران خان نے اس کے بعد تقریر کی اور نریندر مودی کو وارننگ دی بھارت نے اگر کسی قسم کا مس ایڈونچر کیا تو ہم اس کا مکمل جواب دیں گے‘

پاکستان کا پیغام صاف تھا مگر بھارت اسے انڈرسٹینڈ نہ کر سکا لہٰذا اس نے پلوامہ واقعے کے 12 دن بعد 25 اور 26 فروری کی درمیانی رات بالاکوٹ پر سرجیکل سٹرائیک کر دی‘ بھارت کے دوطیارے صبح ساڑھے تین بجے پاکستانی حدود میں داخل ہوئے‘ سوا دو منٹ میں بالاکوٹ کے جنگلوں میں میزائل پھینکے اور واپس چلے گئے‘ ان کا ٹارگٹ بالاکوٹ کا ایک مدرسہ تھا لیکن یہ خوف کی وجہ سے اسے نشانہ نہیں بنا سکے اور جنگل میں دو کوے مار کر واپس چلے گئے‘ ائیر چیف مارشل مجاہد انور خان اس وقت فضائیہ کے سربراہ تھے‘ انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو جگا کر اطلاع دی‘ آرمی چیف نے ائیرچیف سے پوچھا ’’کوئی نقصان تو نہیں ہوا؟‘‘ ائیر چیف نے جواب دیا ’’ہمارا کوئی نقصان نہیں ہوا‘‘ آرمی چیف نے انہیں کہا ’’ہم صبح وزیراعظم کے ساتھ میٹنگ کے بعد ریسپانس کا فیصلہ کریں گے‘‘ ائیرچیف نے بعدازاں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات کو بھی جگا کر اطلاع کر دی‘ چیئرمین نے وزیراعظم کو جگا کر بتایا اور وزیراعظم کا جواب بھی یہی تھا ’’ہم صبح میٹنگ میں فیصلہ کریں گے‘‘ بہرحال 26 فروری کی صبح میٹنگ ہوئی‘ اس میں دو آپشن ڈسکس ہوئے‘ بھارت کے ساتھ مکمل جنگ شروع کر دی جائے‘جنرل زبیر محمود حیات اس آپشن کے حامی تھے‘ دوسراآپشن بھارت میں داخل ہو کر بالاکوٹ کا جواب دے دیا جائے‘آرمی چیف اورا ئیرفورس چیف اس آپشن کے وکیل تھے‘ بہرحال طویل بحث کے بعد وزیراعظم نے دوسرے آپشن کی منظوری دے دی یوں 26 فروری کو آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ (Swift Retart) کی منصوبہ بندی شروع ہو گئی۔

پاکستان نے سوئفٹ ریٹارٹ کے ذریعے رات کی بجائے دن کے وقت اور ایک کے بدلے بھارت کے چھ مقامات کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا‘ اس زمانے کے ڈی جی ملٹری آپریشن اور ڈائریکٹر ملٹری آپریشن نے جی ایچ کیو میں یہ پلان بنایا (یہ دونوں آفیسرز اس وقت بھی فوج کا حصہ ہیں اور لیفٹیننٹ جنرل کی حیثیت سے اہم پوزیشنز پر تعینات ہیں) بہرحال قصہ مزید مختصر پاکستان ائیرفورس کے طیارے 27 فروری 2019ء کی صبح جموں اور کشمیر کے دو سیکڑز پونچھ اور نوشہرہ کے راستے بھارتی ائیرفورس کے چھ اہم بیسز پر پہنچ گئے‘ یہ مقامات نادیا‘ لامہ جہانگیر‘ کری (راجوڑی سیکٹر) بھمبر کا علاقہ ہمی پورتھے‘ ان لوکیشنز میں کرشنا گھاٹی میں بھارتی فوج کا 25 واں ڈویژن ہیڈکوارٹر بھی شامل تھا‘ ہیڈکوارٹر میں انڈین آرمی کا بڑا بارود خانہ اور سپلائی ڈپو تھا‘ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت اس وقت اس ہیڈکوارٹر میں تھا‘ اس نے 26 فروری کو سرجیکل آپریشن کی نگرانی اسی ہیڈکوارٹر سے کی تھی‘

یہ مقام پونچھ سے 24کلو میٹر کے فاصلے پر ہے اور کرشنا گھاٹی کہلاتا ہے‘ پاکستانی طیارے ٹارگٹس پر پہنچے‘ مقامات کو لاک کیا‘ ان کی تصویریں لیں اور پھر ان ٹارگٹس سے پانچ سو میٹر دور عمارتوں اور آبادی سے فاصلے پر میزائل داغ دیے‘ بھارت کے 6 مقامات پر خوف ناک دھماکے ہوئے‘ دھماکے کی آواز سن کر بھارتی آرمی چیف فوری طور پر بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے دلی روانہ ہو گیا‘ پاکستانی طیارے اس کے بعد واپس مڑ گئے‘ میں نے اس زمانے میں آپریشن کرنے والے کرداروں سے پوچھاتھا‘ ہم جب بھارت کے اہم ٹارگٹس کو ہٹ کر سکتے تھے تو پھر ہم نے پانچ سو میٹر دور حملہ کیوں کیا؟ اس کا جواب تھا بھارت نے بھی صرف ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تھی‘ ہم نے 27فروری کو انہیں پیغام دیا آپ لوگ ایک خلاف ورزی کریں گے‘ ہم آپ کو چھ کی شکل میں جواب دیں گے‘

دوسرا بالاکوٹ میں ان کا حملہ آبادی سے دور جنگل میں تھا‘ ہم ان کے اہم فوجی اور فضائی ٹارگٹس تک پہنچے‘ ان کی تصویریں لیں‘ انہیں یہ تصویریں بھجوائیں اور انہیں پھر یہ بتایا ہم آپ کے اہم ترین ٹارگٹس کو نشانہ بنا سکتے تھے لیکن ہم سردست پانچ سو میٹر دور صرف اپنی نشانی چھوڑ کر جا رہے ہیں‘ہمیں اگر اگلی مرتبہ آنا پڑا تو ہم رعایت نہیں کریں گے‘ تیسرا تم نے رات کو حملہ کیا تھا‘ ہم دن کے وقت حملہ کر رہے ہیں‘ بہرحال قصہ مزید مختصر پاکستانی طیاروں کی واپسی پر بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے ان کا پیچھا شروع کر دیا‘ بھارتی طیارے جوں ہی پاکستانی حدود میں داخل ہوئے‘ پاکستانی ائیرفورس نے ان کے دو طیاروں کو نشانہ بنادیا‘ ایک طیارے کا ملبہ بھارتی سائیڈ پر گرا جب کہ دوسرا طیارہ مگ 21 پاکستانی حدود میں گرگیا‘ اس کا پائلٹ ونگ کمانڈر ابھی نندن تھا‘ بھارتی طیارے پر چارعدد سو (Su) 30 میزائل لوڈ تھے مگر ابھی نندن انہیں استعمال نہیں کر سکا‘ یہ میزائل آج بھی پاکستان کے پاس موجود ہیں‘ دوسرا مگ 21طیارہ انڈین حدود میں گرا جب کہ بھارت کا ایک ہیلی کاپٹر اپنے ہی میزائل کا نشانہ بن گیا اور اس میں سوار چھ افسر اور جوان ہلاک ہو گئے۔

یہ پاکستان کی بڑی کام یابی تھی‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس کام یابی کے فوراً بعد امریکی سینٹ کام کے جنرل جوزف وٹل (Votel) کا پہلا فون آگیا‘ اس کا کہنا تھا ’’جنرل آپ لوگوں نے بڑے میچور طریقے سے بدلہ لیا‘ ہماری خواہش ہے یہ معاملہ اب اس سے آگے نہ بڑھے‘‘ آرمی چیف نے جواب دیا‘ یہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے‘ آپ کو بھارت کو روکنا ہو گا‘ یہ اگر مزید آگے بڑھے گا تو ہم نہیں رک سکیں گے‘ اسے بتایا گیا ہم ایک میزائل کا جواب دو میزائلوں سے دیں گے‘ اس شام پارلیمنٹ کی سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس تھا‘ آرمی چیف پارلیمنٹ کی طرف روانہ ہونے لگے تو انہیں فون پر بتایا گیا بھارت رات نو بجے پاکستان پر براہموس میزائلوں سے حملہ کرے گا‘ براہموس میڈیم رینج کروز میزائل ہے‘ بھارت نے یہ روس کی مدد سے بنایا تھا چناں چہ اس کا نام بھارتی دریا براہما پتر اور روسی دریا موسکا (Moska) کو ملا کر براہموس رکھا گیا‘ آرمی چیف نے فون پر ایس پی ڈی کے چیف کو آرڈر دیا آپ فوری طور پر انڈیا کے پانچ ائیربیس میزائلوں سے لاک کر دیں‘ ان ائیر بیسز میں ہلواڑہ ائیربیس‘ پٹھان کوٹ ائیربیس‘ آدم پور ائیربیس‘ اونتی پورہ ائیربیس اور بھوج کا ارنالیا ائیربیس شامل تھا‘بھوج راجستھان میں رن آف کچھ کا علاقہ ہے‘

اس میں انڈین ائیرفورس کا بڑا ائیربیس موجود ہے‘ شام ساڑھے آٹھ بجے پارلیمنٹ کی سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس شروع ہوا‘ یہ وہی اجلاس تھا جس میں پوری اپوزیشن میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو سمیت موجود تھی لیکن وزیراعظم عمران خان اس میں شریک نہیں ہوئے ‘ آرمی چیف نے کمیٹی کو بریفنگ دی اور فیصلہ ہوا پاکستان اپنے دفاع پر کوئی کمپرومائز نہیں کرے گا‘ اجلاس کے دوران سارا وقت آرمی چیف گھڑی دیکھتے رہے‘ ان کا خیال تھا بھارت نے اگر براہموس میزائل داغ دیے تو پھر پاکستان کے پاس جواب کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہو گا اور یوں دو نیو کلیئر پاورز میں جنگ چھڑ جائے گی‘ پارلیمنٹ کی میٹنگ کے بعد امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو کا جنرل باجوہ کو فون آ گیا‘ اس نے اپنی کتاب میں لکھا‘ میں اس وقت ہنوئی میں تھا‘ مجھے بھارتی وزیر خارجہ سشمارسوراج نے فون کیا اور بتایا پاکستان نیوکلیئر جنگ کی تیاری کر رہا ہے‘ میں نے اس سے چند منٹ مانگے‘ میرے ساتھ نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جان بولٹن تھا‘ میں نے اس کی مدد سے فوراً کام شروع کر دیا‘ میں نے پاکستانی آرمی چیف جنرل باجوہ کو فون کیا‘ اس نے مجھے بتایا ہم نہیں بلکہ بھارت ہم پر نیوکلیئر حملے کی تیاری کر رہا ہے‘ ہم بس اس کے جواب کی تیاری کر رہے ہیں‘ میں نے فوری طور پر دلی اور اسلام آباد میں اپنے لوگوں کو ایکٹو کیا اور انہوں نے رات بھر کی مشقت کے بعد دونوں ملکوں کو یقین دلایا تم میں سے کوئی نیوکلیئر جنگ کی تیاری نہیں کر رہا تم اپنے اپنے آرڈرز واپس لے لو یوں ایٹمی جنگ ٹل گئی ورنہ اس رات بہت بڑا حادثہ ہو سکتا تھا۔

امریکی وزیر خارجہ کی مداخلت کے بعد پوری دنیا سے پاکستان کے دوستوں کے فون آنے لگے‘ سعودی عرب بھی مذاکرات میں شامل ہوگیا اور یو اے ای بھی‘ برطانوی ہائی کمشنر تھامس ڈریونے جی ایچ کیو میں جنرل باجوہ سے ملاقات کی‘ ان سب کا مطالبہ تھا آپ بھارتی پائلٹ ابھی نندن کو رہا کر دیں‘نریندر مودی کی بہت بے عزتی ہو چکی ہے‘ پائلٹ کی رہائی کے مذاکرات 27 فروری کی پوری رات چلتے رہے یہاں تک کہ پاکستان راضی ہو گیا‘ جنرل باجوہ نے 28 فروری کی صبح وزیراعظم عمران خان کو فون کیا اور انہیں بتایا ہم نے بالاکوٹ کا بدلہ لے لیا ہے‘ ہمارا ہاتھ اس وقت اوپر ہے‘ ہم بھارتی پائلٹ کو چھوڑ کر جنگی صورت حال سے نکل سکتے ہیں لہٰذا ہمیں اپنے دوستوں کا مطالبہ مان لینا چاہیے‘ عمران خان نے اتفاق کیا تاہم ان کا کہنا تھا ’’میں یہ اعلان شام چار بجے پارلیمنٹ میں خطاب کے دوران کروں گا‘‘ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے عمران خان نے اعلان کے لیے چار بجے کا وقت کیوں طے کیاتھا؟ اس کی وجہ یہ تھی بھارت نے شام پانچ بجے پریس کانفرنس طے کر رکھی تھی‘ اس میں اس نے پاکستان پر مزید حملوں کا اعلان کرنا تھا‘پاکستان نے اپنے دوستوں کے ذریعے چار بجے کا پیغام دے دیا جس کے بعد ابھی نندن کو آرمی چیف کا یہ پیغام دیا گیا‘ تمہارے لیے دو خبریں ہیں‘ ایک اچھی اور دوسری بری‘ تم پہلے بری خبر سننا چاہو گے یا اچھی‘ ابھی نندن نے پہلے اچھی خبر سننے کی خواہش ظاہر کی‘ اسے بتایا گیا تمہیں رہا کیا جا رہا ہے‘ اس نے اطمینان کا لمبا سانس لیا‘ اس کے بعد اسے یہ بری خبر سنائی گئی کہ ہم تمہاری بیوی کے ساتھ ابھی تمہاری بات کرانے لگے ہیں‘ یہ سن کر اس کی ہنسی نکل گئی‘ بعدازاں سعودی عرب کے ذریعے اس کی بیوی سے بات کرائی گئی‘فون سنتے وقت ابھی نندن کے ہاتھ کانپ رہے تھے اور آنکھوں میں آنسو تھے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



27فروری 2019ء


یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…