پہلگام واقعے کے بارے میں دو مفروضے ہیں‘ ایک پاکستان نے کرایا اور یہ جعفر ایکسپریس کے اغواء کا بدلہ تھا‘ ٹرین کا اغواء ایک ٹیکنیکل کام ہوتا ہے‘ کوئی دہشت گرد جماعت یہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک اسے کسی ملک کی مدد حاصل نہ ہو‘ انڈیا نے بی ایل اے کو تیار کیا‘ ہر قسم کی سپورٹ دی اور یہ ٹرین اغواء کرنے میں کام یاب ہو گئی‘ پاکستان کی بہت بے عزتی ہوئی اور اس نے پہلگام میں بھارت کی بے عزتی کر کے اس کا بدلہ لے لیا وغیرہ وغیرہ‘ دوسرا مفروضہ‘ یہ مودی کا فالس فلیگ آپریشن تھا اور اس کا مقصد پاکستان پر جنگ مسلط کرکے اسے معاشی ٹیک آف سے روکنا تھا‘
دونوںمیں کون سا مفروضہ درست ہے یہ فیصلہ وقت کرے گا تاہم یہ طے ہے مودی نے اس کو موقع بنایا اور اسے آر ایس ایس کی صد سالہ تقریبات اور خود کو تاحیات وزیراعظم بنانے کے لیے بطور ٹرافی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا‘ یہ منصوبہ بظاہر پرفیکٹ تھا لیکن اس میں دو خامیاں تھیں‘ پہلی خامی 1971ء کا سانحہ تھا‘ پاک فوج نے آدھا ملک گنوا کر یہ سیکھ لیا تھا ہم سائز‘ بجٹ اور وار مشینری میں بھارت کا مقابلہ نہیں کر سکتے‘ ہم صرف ٹریننگ‘ میرٹ اور مستقبل کی سمارٹ ٹیکنالوجی سے ہی اپنے سے چھ گنا بڑے دشمن سے لڑ سکتے ہیں‘ پاک فوج کو یہ بھی معلوم ہو گیاانڈیا بنگلہ دیش تک نہیں رکے گا‘ یہ باقی پاکستان کو بھی توڑنے کی کوشش کرے گا لہٰذا فوج نے ہر صورت اپنے آپ کو بچا کر رکھنا ہے تاکہ ملک بچ سکے چناں چہ فوج نے پچھلے 50برسوں میں ٹریننگ‘ آلات جنگ اور بھارت تینوں سے غفلت نہیں برتی‘ 2019ء کے پلوامہ واقعے کے بعد فوج نے فضائی برتری کے لیے بھی دن رات ایک کر دیے‘
انہیں حکومت سے رقم ملی یا نہیں مگر یہ میزائل پروگرام‘ ائیرفورس اور سائبر وار فیئر پر سرمایہ کاری کرتی چلی گئی‘ آپ اس کا نتیجہ 10مئی کو دیکھ لیں‘ دوسری خامی نریندر مودی یہ فراموش کر بیٹھا پاک فوج پچھلے 45برسوں سے حالت جنگ میں ہے‘ افغان وار سے لے کر فتنہ الخوارج تک فوج اور آئی ایس آئی نے ایک دن سانس نہیں لیا‘ یہ ہر روز حالت جنگ میں رہی اوریہ جنگ تین طرفہ تھی‘ عالمی‘ اندرونی سیاست اور دم توڑتی معیشت‘ ان 45 برسوں میں فوج اور آئی ایس آئی دونوں ہر قسم کے حالات کے لیے ٹرینڈ ہو گئی جب کہ اس کے مقابلے میں انڈین آرمی نے 1971ء کے بعد کوئی جنگ نہیں لڑی تھی‘ کارگل وارمیں بھارتی فوج نے تھوڑی بہت ہل جل کی لیکن یہ پاکستان جیسے ملک سے لڑنے کے لیے کافی نہیں تھا‘ را کی تمام تر پریکٹس بھی پاکستان میں دھماکوں اور طالبان اور بی ایل اے کی مدد تک محدود تھی جب کہ اس کے مقابلے میں آئی ایس آئی کو مسلسل سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے ساتھ کام کا موقع ملا اور یہ چالیس سال کے جی بی اور موساد کا مقابلہ بھی کرتی رہی‘ اس پریکٹس نے اسے را کے مقابلے میں بہت پختہ کر دیا۔
پاک فوج کی ایک اور برتری ڈرونز اور سائبر ٹیکنالوجی تھی‘ دنیا میں ڈرونز کا افتتاح بھی پاکستان سے ہوا تھا‘ جون 2004ء میں جنوبی وزیرستان میںدنیا کا پہلا ڈرون حملہ ہوا اور یہ اس کے بعد ہوتے چلے گئے‘ پاکستان نے اس میں بہت نقصان اٹھایا لیکن یہ ڈرون ٹیکنالوجی سیکھ گیا جب کہ بھارت نے یہ ٹیکنالوجی صرف خریدی تھی بھگتی نہیں تھی‘ پاکستان نے پچھلے 25 برسوں میں دنیا کے موسٹ وانٹیڈ مجرموں اور خطرناک ترین آرگنائزیشنز کو بھی بھگتایا ‘ ان میں القاعدہ‘ داعش‘ طالبان اور ٹی ٹی پی شامل ہیں‘ اس نے بھی عوام‘ فوج اور آئی ایس آئی کے اعصاب مضبوط کر دیے‘ پاکستان کو ایک اور برتری چین کی شکل میں بھی حاصل تھی‘ چین ٹیکنالوجی میں امریکا اور یورپ کا مقابلہ کرتا ہے‘ اس نے 40برسوں میں ٹریلین ڈالر کی وار انڈسٹری ڈویلپ کر لی لیکن اس نے کیوں کہ کوئی جنگ نہیں لڑی لہٰذا یہ اپنا اسلحہ ٹیسٹ کر سکا اور نہ دنیا کو بیچ سکا‘ پاکستان پچھلے دس برسوں میں آہستہ آہستہ چین کی ٹیسٹنگ گرائونڈ بنتا چلا گیا‘ ہمیں اس کے دو فائدے ہوئے‘ ہمیں عالمی مارکیٹ کے مقابلے میں دس فیصد رقم میں جدید ترین اسلحہ ملنے لگا اور دوسرا وارٹیکنالوجی میں چین کا ہم پر انحصار بڑھتا چلا گیا‘ میں آپ کو سمجھانے کے لیے دو مثالیں دیتا ہوں‘
بھارت نے فرانس سے رافیل طیارے خریدے‘ اسے 36 طیارے 9 بلین ڈالر میں ملے گویا اسے ایک طیارہ 250 ملین ڈالر میں پڑا جب کہ ہم نے چین سے 35 ملین ڈالر کے حساب سے جے ٹین (J-10) طیارے خریدے ‘ دونوں کی قیمت میں آٹھ گناہ فرق تھا ‘ ہم نے چین کے ساتھ مل کرجے ایف 17 خود بنا لیا تھا‘ آپ اب فرض کیجیے سات مئی اور 10مئی کو اگر جے ٹین اور جے ایف 17 گر جاتے تو کس کا زیادہ نقصان ہوتا‘ پاکستان یا چین؟ پاکستان اس کے باوجود بچ جاتا کیوں کہ یہ نیوکلیئر پاور ہے‘ دنیا فوراً جنگ بند کرا دیتی لیکن اگر چین کے طیارے گر جاتے تو اس کی ٹریلین ڈالر کی وار انڈسٹری ختم ہو جاتی لہٰذا اس نے ہر صورت ہمارا ’’آئوٹ آف دی وے‘‘ ساتھ دینا تھا کیوں کہ اس سے اسے اپنی ٹیکنالوجی کے وار ٹیسٹ کا موقع مل رہا تھا اور کام یابی کی شکل میں اسے پوری دنیا کی مارکیٹ بھی مل جانی تھی‘دوسرا چین یہ بھی جانتا تھا اگر بھارت جیت گیا تو اس کا اگلا ہدف چین ہو گا‘ یہ معاشی اور عسکری دونوں شعبوں میں پہلوان بن جائے گا اور پھرہمیں ہلنے نہیں دے گا‘ پاکستان نے چین کی ان دونوں مجبوریوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔
نریند مودی کا10مئی کی ہار میں کوئی قصور نہیں تھا‘ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو مار کھا جاتا‘ کیوں؟ کیوں کہ بھارت ہر سال اپنی فوج پر ساڑھے 80 بلین ڈالر خرچ کرتا ہے جب کہ ہماری فوج کوصرف ساڑھے آٹھ بلین ڈالرملتے ہیں‘ بھارت کے پاس جدید ترین توپین ارجن اور بھشما‘ جدید ترین جہاز رافیل‘ مضبوط ترین اینٹی بیلسٹک میزائل ایس 400 اور اسرائیل کے جدید ترین ڈرونز ہاروپ ہیں‘ اس کی فوج کی تعداد 14لاکھ ہے اور اس کے خزانے میں بھی 600 ارب ڈالر پڑے ہیں لہٰذا یہ تکبر میں کیوں نہ آتا؟ ہم نے انڈیا کو 2019ء میں آدھ گھنٹے میں زمین پر لٹا دیا تھا‘ یہ بھارت کے لیے بڑا سیٹ بیک تھا‘ مودی نے اس کے بعد ائیرفورس میں رافیل شامل کیے اور مطمئن ہو گیا لیکن پاکستان محدود بجٹ کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور اس نے طیاروں اور ڈرونز کی کمیونی کیشن ہیک کرنے میں کمال حاصل کر لیا لہٰذا پاکستان نے دس مئی کی صبح انڈین ائیرفورس کا پورا سسٹم جام کر دیا‘ ہم نے بھارت کی 70 فیصد بجلی بند کر دی تھی اور ریڈار سسٹم منجمد کر دیا تھا یہاں تک کہ ہمارے طیارے دہلی تک پہنچ گئے اور وہاں اپنا ’’پے لوڈ‘‘ خالی کر کے واپس آ گئے‘ اس جنگ میںانڈیا کے سات طیارے اور 26ائیربیس تباہ ہو گئے جب کہ ہمارے کسی پائلٹ اور کسی طیارے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا‘ کیا یہ معجزہ نہیں‘ کیا یہ کمال نہیں اور کیا اس پر پوری قوم کو سجدہ شکر بجا نہیں لانا چاہیے؟۔
ہم اب 22 اپریل سے 10مئی کے انتہائی حساس اور مشکل ترین دنوں کی طرف آتے ہیں‘ 22 اپریل کے پہلگام کے واقعے کے بعد جب بھارتی چینلز نے منہ کی توپین کھولیں تو پاکستان اٹھ کر بیٹھ گیا‘ 22 اپریل کی شام تک فوج اور آئی ایس آئی اس نتیجے تک پہنچ چکی تھی ہمیں فوری طور پر جنگ کی تیاری کر لینی چاہیے چناں چہ فوج نے چھٹیاں کینسل کر دیں اور تمام افسروں اور جوانوں کو ہائی الرٹ کر دیا‘ پہلا مقابلہ انفارمیشن وار تھی‘ بھارت نے میجر گورو آریا‘ ارنب گوسوامی‘ امن چوپڑا‘ روبیکا لیاقت‘ سدھیر چودھری‘ برکھا دت‘ گورو ساونت اور چینلز ری پبلک ٹی وی‘ اے بی پی نیوز‘ آج تک اور این ڈی ٹی کو میدان میں اتار دیا جب کہ ہماری انفارمیشن منسٹری اور ٹی وی چینلز اپنی دھوتی سنبھالتے رہ گئے‘ پاکستانی صحافی کنفیوژڈ بھی تھے اور ڈبل مائینڈڈ بھی چناں چہ آئی ایس پی آر اور چند یوٹیوبرز سامنے آئے اور انہوں نے اتنی انفارمیشن بمنگ کی کہ انڈیا پاکستان کے اکائونٹس بند کرنے پر مجبور ہوگیا‘ پاکستان نے اگلے دن زیادہ بڑا کمال کر دیا‘ اس نے جیوٹیکنگ کے ذریعے انڈیا کے تمام بڑے یوٹیوب چینلز پر اپنا ملی ترانہ چلوا دیا‘ آئی ایس پی آر عوام کے رابطے میں بھی رہا‘ ہر قسم کی صورت حال پر ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری عوام کے سامنے آتے اور قوم کو تازہ ترین صورت حال پر اعتماد میں لیتے رہے‘ یہ بار بار عوام کو حوصلہ بھی دیتے تھے اور انہیں یہ بھی بتاتے تھے ہم جس دن جواب دیں گے اس دن دنیا دیکھے گی اور پھر دنیا نے دیکھا‘انڈین ائیرفورس کا پاکستانی ائیرفورس کے ساتھ پہلا سامنا 29 اور 30 اپریل کی درمیانی رات ہوا‘ انڈیا نے حملے کی کوشش کی لیکن پاکستانی جہازوں نے ان کا راستہ روک لیا‘
پاکستان نے ان کا کمیونی کیشن سسٹم بھی جام کر دیا‘ اس کے بعد ایل او سی کا محاذ گرم ہو گیا‘ پاکستان نے گولے مار مار کر انڈین آرمی کا حشر کر دیا‘ پاکستان نے اس دوران اڑی اور بگلیہار ڈیمز کو بھی نشانے پر لے لیا‘ میزائل فٹ کر دیے گئے جس پر انڈیا نے گھبرا کر پانی چھوڑ دیا کیوں کہ ان کا خیال تھا پاکستان ڈیم توڑ کر علاقے میں سیلاب لے آئے گا‘ یہ صورت حال بہرحال 6 اور 7مئی کی درمیانی رات تک چلی‘ اس رات عرب اسرائیل جنگ کے بعد دنیا کی سب سے بڑی فضائی ڈاگ فائیٹ ہوئی‘ 125 طیارے اس رات ایل او سی پر تھے‘ اسی ڈاگ فائیٹ کے دوران انڈیا نے پاکستان کے 9 شہروں پر میزائل داغ دیے جس سے مسجدیں اور سول عمارتوں کو نقصان پہنچا اور 30لوگ شہید ہو گئے‘ اس کے جواب میں پاکستان نے انڈیا کے پانچ طیارے گرا دیے جن میں تین رافیل بھی موجود تھے‘ یہ دنیا میں تباہ ہونے والے پہلے رافیل طیارے تھے (جاری ہے)۔