اسلام آباد (این این آئی)سابق آرمی چیف، صدر اور چیف ایگزیکٹو رہنے والے مرحوم پرویز مشرف کے بیٹے بلال مشرف نے کہا ہے کہ ان کی نظر میں والد کی جانب سے 2002 میں کرایا گیا ریفرنڈم ان کا سب سے غلط فیصلہ تھا۔بلال مشرف نے حال ہی میں نادر علی کے پوڈکاسٹ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے والد کے آخری ایام سمیت ان کی سیاست اور فوجی سروس پر بھی بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا قیام پاکستان کے بعد ہندوستان سے ہجرت کرکے کراچی آئے، وہ پہلے سے ہی سرکاری ملازم تھے، اس لیے انہیں کراچی میں سرکاری رہائش گاہ ملی،ان کے مطابق ان کے دادا کلرک تھے، انہیں جیکب لائن میں ایک کوارٹر ملا، جہاں ان کے خاندان نے ابتدائی سال گزارے، پھر ان کے خاندان نے ناظم آباد میں گھر بنایا، پھر دوسری جگہوں پر بھی گھر بنے۔انہوںنے کہاکہ ان کی دادی نے بھی قیام پاکستان کے بعد کسٹم سروسز میں ملازمت کی جبکہ دادا ترکیہ میں موجود پاکستانی سفارت خانے میں بطور کلرک تعینات ہوئے تو ان کے خاندان کے معاشی حالات بہتر ہو۔
انہوں نے والد کے حوالے سے بتایا کہ ان کے والد نے انقرہ میں تعلیم حاصل کرنے سمیت ایف سی کالج لاہور اور دیگر اداروں سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد فوج میں شمولیت اختیار کی۔بلال مشرف نے کہا کہ ان کے والد اچھے، شفیق اور سخت مزاج تھے، غلطی کرنے پر انہیں اس طرح سمجھاتے کہ وہ دوبارہ کبھی غلط نہ کرتے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ زندگی کے آخری ایام میں وہ والد کے قریب رہے، انہوں نے والد سے معافیاں بھی مانگیں اور والد نے بھی انہیں معاف کیا، ان کے درمیان کبھی لڑائی نہیں ہوئی تھی لیکن شکوے تھے جو والد کے آخری ایام میں دور ہوئے۔بلال مشرف کے مطابق دبئی میں والد اور بولی وڈ اداکار سنجے دت کی متعدد بار ملاقاتیں ہوئیں، دونوں ایک ہی سینٹر میں بیڈمنٹن کھیلنے آتے، دونوں کے درمیان اچھے دوستانہ روابط تھے۔
ایک سوال کے جواب میں بلال مشرف نے بتایا کہ انہیں والد کی جانب سے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے قیام کا فیصلہ سب سے اچھی بات اور اچھا کام لگتا ہے۔انہوںنے کہاکہ والد کی جانب سے نادرا کے قیام کے بعد ہی پاکستانی عوام کے قانونی دستاویزات کو مناسب انداز میں محفوظ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج نادرا کا کردار انتہائی اہم بن چکا ہے۔انہوں نے واضح کیا کہ وہ والد کی شخصیت سے بالکل مختلف ہیں، ان کا سیاست اور فوج سے کبھی لگائو نہیں رہا، ان کا رجحان تعلیم کی طرف ہے،والد کے سب سے برے یا غلط کام کے سوال پر بلال مشرف نے والد کی جانب سے 30 اپریل 2002 کو کرائے گئے ریفرنڈم کو والد کا سب سے غلط فیصلہ قرار دیا۔
انہوںنے کہاکہ والد نے 1999 میں حکومت سنبھالی اور 2001 تک بہترین انداز میں حکومت چلائی لیکن 2002 میں انہوں نے ریفرنڈم کرایا جو کہ ان کی نظر میں غلط فیصلہ تھا۔بلال مشرف نے کہا کہ ان کے خیال میں ریفرنڈم کروانا ملک سمیت والد کے لیے بھی غلط ثابت ہوا، اس سے اچھا تھا کہ انتخابات کروائے جاتے یا پھر جس طرح حکومت کرتے آ رہے تھے، ویسے ہی حکومت کرتے آتے لیکن ریفرنڈم نہ کرواتے۔ان کے مطابق ریفرنڈم میں پوچھے جانے والے سوال تک بھی مناسب نہیں تھے اور ان کا ذاتی خیال ہے کہ ریفرنڈم کروانا والد کا سب سے غلط فیصلہ تھا جو انہیں پسند نہیں تھا۔خیال رہے کہ پرویز مشرف طویل علالت کے بعد 79 کی عمر میں 5 فروری 2023 کو انتقال کر گئے تھے۔
انہوں نے 12 اکتوبر 1999 کو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو معزول کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور بعد ازاں اس وقت کے صدر رفیق تارڑ کو بھی ہٹاکر خود کو چیف ایگزیکٹو قرار دیا تھا۔بعد ازاں 2001 میں وہ باوردی ملک کے پہلے صدر بھی بنے اور انہوں نے آرمی چیف کا عہدہ بھی اپنے پاس رکھا اور متعدد بار بطور صدر خود ہی اپنی آرمی چیف کی مدت میں خود کو توسیع دیتے رہے۔پرویز مشرف نے 30 اپریل 2002 کو عوامی ریفرنڈم کروایا جس میں انہوں نے عوام سے سوال کیا کہ وہ انہیں آئندہ پانچ سال تک بطور صدر دیکھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ مذکورہ ریفرنڈم پر اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے اعتراض کیا تھا لیکن اس باوجود ریفرنڈم کرایا گیا اور نتائج میں دعویٰ کیا گیا کہ 97 فیصد ووٹرز نے پرویز مشرف کو آئندہ پانچ سال تک بطور صدر منتخب کرلیا۔مذکورہ ریفرنڈم میں 18 سال سے زائد العمر ہر شخص کو رائے دینے کا حق دیا گیا تھا اور شناختی کارڈ دکھانے کی شرط بھی نہیں تھی۔