پیر‬‮ ، 05 مئی‬‮‬‮ 2025 

محترم چور صاحب عیش کرو

datetime 6  مئی‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری ہوئی تھی‘ میں نے 27 مارچ کے کالم ’’فنگر پرنٹس کی کہانی‘‘ میں پولیس اور دوسرے سرکاری اداروں کے درمیان رابطے کی کمی کا ایک پہلو بیان کیا تھا‘ وہ حصہ نادرا کے ریکارڈ میں موجود فنگر پرنٹس ڈیٹا سے متعلق تھا‘ پولیس اور نادرا کے بیچ سات سمندر حائل ہیں‘ لوکل پولیس فنگر پرنٹس لیتی ہے اور یہ فائل بنا کر ڈی پی او آفس بھجوا دیتی ہے‘ ڈی پی او اسے لاہور میں قائم فنگر پرنٹس بیورو بھجوا دیتا ہے‘ بیور میں 18 لاکھ مجرموں کا ڈیٹا موجود ہے‘ بیورو پہلے ان فنگر پرنٹس کو اپنے ریکارڈ سے میچ کرتا ہے اگر یہ میچ ہو جائیں تو مجرم کی کھوج شروع ہو جاتی ہے اور اگر یہ میچ نہ کریں تو پھر فنگر پرنٹس وزارت داخلہ بھجوا دیے جاتے ہیں‘

وزارت داخلہ ان کے طویل جوہری ٹیسٹوں کے بعد انہیں نادرا بھجوا دیتی ہے اور نادرا جائزے کے بعد انہیں وزارت داخلہ‘ وزارت داخلہ آئی جی آفس اور آئی جی آفس ڈی پی او آفس بھجوا دیتا ہے‘ یہ عمل اگر مسلسل چلتا رہے تو یہ دو سے تین مہینوں کی مسافت ہے اور اگر خدانخواستہ درمیان میں کوئی صاحب چھٹی پر چلا جائے یا اس کے پاس ڈاک کے معائنے کا وقت نہ ہو تو فنگر پرنٹس فائلوں میں فوت ہو جاتے ہیں اور مجرم کسی دوسرے صوبے میں نکل جاتا ہے یا بیرون ملک روانہ ہو جاتا ہے‘ ہمارے چور کے فنگر پرنٹس پورا مہینہ سسٹم کے پائپ لائین میں پڑے رہے لہٰذا مجبوراً مجھے وزارت داخلہ رابطہ کرنا پڑا‘ ان لوگوں کی مہربانی سے پرنٹس نادرا پہنچے‘ میں نے اس کے بعد چیئرمین نادرا کے دفتر سے رابطہ کیا اور ان کی مہربانی سے فنگر پرنٹس ہمسائے گائوں کے ایک نوجوان سے میچ کر گئے‘ ہم خوش ہو گئے مگر جب فنگر پرنٹس پندرہ دن کا سفر طے کر کے واپس لالہ موسیٰ پہنچے تو ملزم اس وقت مسجد میں اعتکاف بیٹھا تھا‘

بہرحال پولیس نے اسے گرفتار کر لیا‘ میں نے ایس ایچ او سے درخواست کی ملزم پر تشدد نہیں کرنا‘ آپ پراپر تفتیش کریں اور اس کے بعد قانونی کارروائی کریں‘ ایس ایچ او کی مہربانی انہوں نے میری درخواست مان لی اور اس کے بعد نئی کہانی شروع ہو گئی‘ پولیس کی تفتیش میں ملزم بے گناہ نکلا جس کے بعد صورت حال دل چسپ ہو گئی‘ واردات کے مقام سے ملزم کے فنگر پرنٹس ملے لیکن ملزم بے گناہ تھا‘ اس کے بعد اب مزید دو تفتیشی ذرائع باقی تھے‘ جیو فینسنگ اور پولی گرافک ٹیسٹ‘ میں نے پولیس سے درخواست کی آپ یہ دونوں ٹولز استعمال کریں‘ میری درخواست پر پولیس نے جیو فینسنگ کا پراسیس شروع کر دیا‘ معلوم ہوا موبائل فون ڈیٹا صرف آئی بی اور آئی ایس آئی کے پاس ہوتا ہے‘

پولیس اس کے لیے آئی بی کو خط لکھتی ہے‘ یہ پراسیس بھی دل چسپ ہے‘ ایس ایچ او متعلقہ ڈی پی او کو خط لکھتا ہے‘ وہ اسے اوپر‘ مزید اوپر اور مزید سے مزید اوپر بھجواتا ہے اورمزید سے مزید اوپر والے آئی بی کو بھجوا دیتے ہیں اور یہ وہاں جا کر فائلوں میں دب جاتا ہے‘ اس دوران اگر کوئی فائل کا پیچھا کر لے تو پھر اوپر سے نیچے کا سفر شروع ہو جاتا ہے‘ یہ عمل بھی دو تین ماہ طویل ہوتا ہے‘ میرے کیس میں فائل پورا مہینہ آئی بی میں پڑی رہی‘ مجبوراً مجھے دوبارہ درمیان میں کودنا پڑا‘ میرے ایک دوست نے ڈی جی آئی بی سے درخواست کی‘ ان کی مہربانی سے ڈیٹا مل گیا لیکن یہ ادھورابھی تھا اور اس کا سرکاری ذریعہ بھی ایک صاحب سے دوسرے صاحب اور ایک دفتر سے دوسرا‘ تیسرا اور اٹھارہواں دفتر تھا‘ ڈیٹا ادھورا تھا لہٰذا دوسری مرتبہ درخواست کی گئی‘ اس کے بعد پتا چلا ڈیٹا صرف نیٹ ورک تک محدود ہوتا ہے‘ ملزم اگر انٹرنیٹ استعمال کر رہا ہو تو پھر یہ بے کار ہے چناں چہ مہینہ بھر کی کوشش اور تگڑی سفارشوں کے بعد حاصل ہونے والا ڈیٹا فضول نکلا‘ یہ بھی معلوم ہوا چھوٹے تھانوں میں ڈیٹا پڑھنے اور سمجھنے والے اہلکار بھی نہیں ہیں‘

اس کے بعد پولی گرافک ٹیسٹ بچ گیا تھا‘ معلوم ہوا یہ سہولت صرف لاہور میں پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے پاس دستیاب ہے اور یہ درخواست بھی ایس ایچ او سے ڈی پی او اور اس کے بعد ہائیر اتھارٹی سے ہو کر فرانزک ایجنسی تک پہنچتی ہے‘ بہرحال جیسے تیسے ہماری درخواست پنجاب فرانزک ایجنسی تک پہنچ گئی لیکن ہمارے ملزم کے ٹیسٹ کے لیے ڈیڑھ مہینہ بعد کی تاریخ ملی‘ مجھے ایک بار پھر درمیان میں کودنا پڑگیا‘ سفارش کرائی تو ڈیڑھ مہینہ گیارہ دنوں میں تبدیل ہو گیا جس کے بعد ٹیسٹ ہو گیا لیکن رپورٹ نہیں ملی‘ پندرہ دن رپورٹ کا انتظار کیا‘ یہ نہ آئی تو پھر سفارش‘ رپورٹ پھر بھی نہ آئی‘ مجبوراً ایک بار پھر سفارش کرانی پڑی‘ مجھے بتایا گیا ہم نے رپورٹ ڈی پی او آفس بھجوا دی ہے‘ اس خوش خبری کو بھی ایک ہفتہ گزر چکا ہے لیکن رپورٹ ابھی تک لالہ موسیٰ نہیں پہنچی۔

آپ ذرا سسٹم ملاحظہ کیجیے‘ ایف آئی آر پولیس درج کرتی ہے‘ تفتیش بھی پولیس کی ذمہ داری ہے‘ فنگرپرنٹس نادرا کے پاس ہیں اور نادرا کے ڈیٹا تک پولیس کی رسائی نہیں اور اس رسائی کے لیے ہزار صفحات‘ سو پرنٹرز‘ 20 افسر اور پورا محکمہ ڈاک چاہیے اور اس کے بعد بھی اگر مدعی کی اپروچ ہے تو نادرا سے جواب آ جائے گا ورنہ یہ خط پولیس کے کسی اعلیٰ افسر‘ وزارت داخلہ کے سیکشن افسر یا پھر نادرا کی کسی توپ کے میز پر گل سڑ جائے گا‘ موبائل فون ڈیٹا آئی بی کے پاس ہے اور اس کے حصول کے لیے بھی طویل اور تھکا دینے والا پراسیس ہے اور اسے مکمل کرنے کے لیے بھی مدعی کے پاس وقت اور ذرائع ہونے چاہییں‘ فرانزک کے لیے 12 کروڑ لوگوں کے صوبے میں صرف ایک لیب ہے اور اس سے بھی ڈیڑھ دو مہینے کا وقت ملتا ہے اور اگر فرانزک ہو جائے تو رپورٹ کے لیے بھی مہینہ اور تگڑی سفارشیں چاہییں چناں چہ پھر تھرڈ ڈگری کے علاوہ پولیس کے پاس کیا آپشن بچتا ہے‘ دوسرا یہ پراسیس ثابت کرتا ہے ہمارا نظام مظلوم کے بجائے ملزم کو سپورٹ کرتا ہے اور تیسرا حکومت نے پولیسنگ کو ناممکن بنا دیا ہے اوراس وجہ سے ملک میں جرائم میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے‘

مجرم بے دھڑک چوری سے لے کر قتل تک کر گزرتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ جانتے ہیں پولیس ہمیں پکڑ نہیں سکے گی‘ یہ ملزم یا مجرم کی تلاش کا عمل ہے‘ عدالتی عمل اس کے بعد شرع ہوتا ہے اور اس عمل میں اگر مجرم خوش حال ہے تو پھر آپ اسے کیفر کردار تک نہیں پہنچا سکتے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ 9 مئی کے کیسز کو دیکھ لیں‘ ریاست کا دعویٰ ہے تاریخ میں آج تک عسکری عمارتوں اور فوجی نشانیوں پر حملہ نہیں ہوا‘ کسی نے جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہائوس پر حملے کی جرات نہیں کی چناں چہ ریاست نے 9 مئی 2023ء کے بعد تاریخ کا خوف ناک ترین کریک ڈائون کیا لیکن دو سال گزرنے کے باوجود 9 مئی کے ذمہ داروں کو سزا تو دور یہ اب تک مقدمات بھی نہیں چلا سکی‘ آپ اس سے معمولی چوری چکاری‘ ڈاکہ ذنی‘ فراڈ اور قتل کے مقدمات کا اندازہ کر لیجیے‘

ہمارے ملک میں ڈاکے اور قتل جیسے خوف ناک جرائم کے بعد مدعی بار بار لٹتا ہے‘ پہلے اسے ڈاکو اور قاتل برباد کرتے ہیں‘ پھر پولیس‘ پھر وکیل‘ پھر جج‘ پھر جیلرز اور اس کے بعد باقی ماندہ نظام چناں چہ ملک میں مجرم کی تلاش اور انصاف کا صرف ایک ہی طریقہ بچتا ہے اور وہ ہے مظلوم یا مدعی واردات کے بعد خاموشی اختیار کر لے‘ اپنا مقدمہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دے ورنہ دوسری صورت میں انصاف اور تفتیش کا عمل اس کے باقی اثاثے بھی کھا جائے گا‘ چور نے اگر اسے سو روپے کا نقصان پہنچایا تھا تو چور پکڑنے والے لوگ اور چور کو سزا دینے والے بہشتی اسے لاکھ روپے اور زندگی کے دس پندرہ برسوں سے محروم کر دیں گے۔

میں نے اپنے کیس کا مزید پیچھا چھوڑ دیا ہے‘ میں آئی جی‘ وزیر داخلہ‘ چیئرمین نادرا اور ڈی جی آئی بی کے دفتر تک گیا لیکن مجھے نظام تفتیش مکمل بے بس اور غیرفعال نظر آیا‘ مجھے دوستوں نے کہا چھوڑو معمولی سی چوری ہے‘ ہم نقصان پورا کر دیتے ہیں‘ میں نے انہیں بڑی مشکل سے سمجھایا ہمیں نقصان کی کوئی پرواہ نہیں‘ ہم نے چوری سے اگلے دن سکول کی تمام اشیاء پوری کر دی تھیں‘ میں صرف اس شخص کا چہرہ دیکھنا چاہتا تھا جسے سکول میں چوری کرتے ہوئے بھی شرم نہیں آئی‘ میں اس سسٹم کی نبض بھی ٹٹولنا چاہتا تھا‘ میری دوسری خواہش پوری ہو گئی‘ میں نے سسٹم کی نبض ٹٹول لی‘پولیس کو چور نہیں ملا چناں چہ میں اس کی زیارت سے محروم رہا لہٰذا میں اپنا دعویٰ واپس لے رہا ہوں تاہم آخری مرتبہ میری وزیر داخلہ‘ چیف سیکرٹری اور آئی جی پنجاب سے درخواست ہے آپ اگر مہربانی کر کے اپنا سسٹم ٹھیک کر لیں تو اس سے آپ ہی کو فائدہ ہو گا‘ آپ کا ورک لوڈ کم ہو جائے گا اور معاشرے میں جرائم رک جائیں گے‘ آج کے زمانے میں ٹمبکٹو میں بھی پولیس سسٹم پیپر لیس اور الیکٹرانک ہے‘

وہاں بھی کوئی افسر کسی کو خط نہیں لکھتا‘ ای میل کرتا ہے اور گھنٹے میں اس کا جواب آ جاتا ہے‘ وہاں بھی ہر ضلعے میں فرانزک لیب ہے اور پولیس کو موبائل فون ڈیٹا اور فنگر پرنٹس کے لیے دوسرے محکموں کو خط نہیں لکھنے پڑتے‘ یہ ’’لاگ ان‘‘ ہوتے ہیں اور ان کی فنگر پرنٹس ڈیٹا تک رسائی ہو جاتی ہے جب کہ ہم نے رسہ بینک میں جمع کرا کر گھوڑے کو کھلا چھوڑا ہوا ہے‘ ہمارے پاس کہنے کو سب کچھ ہے لیکن کسی ایک چھت کے نیچے نہیں‘ ہم نے ٹیکنالوجی کو پورے ملک میں پھیلا رکھا ہے تاکہ ہم بندر کی طرح ایک شاخ سے دوسری شاخ پر چھلانگ لگانے کا کھیل جاری رکھ سکیں بہرحال قصہ مختصر میری چور سے درخواست ہے محترم چور صاحب !ہم تھک چکے ہیں‘ آپ اب عیش کریں۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



محترم چور صاحب عیش کرو


آج سے دو ماہ قبل تین مارچ کوہمارے سکول میں چوری…

شاید شرم آ جائے

ڈاکٹرکارو شیما (Kaoru Shima) کا تعلق ہیرو شیما سے تھا‘…

22 اپریل 2025ء

پہلگام مقبوضہ کشمیر کے ضلع اننت ناگ کا چھوٹا…

27فروری 2019ء

یہ 14 فروری 2019ء کی بات ہے‘ مقبوضہ کشمیر کے ضلع…

قوم کو وژن چاہیے

بادشاہ کے پاس صرف تین اثاثے بچے تھے‘ چار حصوں…

پانی‘ پانی اور پانی

انگریز نے 1849ء میں پنجاب فتح کیا‘پنجاب اس وقت…

Rich Dad — Poor Dad

وہ پانچ بہن بھائی تھے‘ تین بھائی اور دو بہنیں‘…

ڈیتھ بیڈ

ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…