پیر‬‮ ، 07 اپریل‬‮ 2025 

بل فائیٹنگ

datetime 8  اپریل‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ وہ ایک لمبی گیم تھی جس کے تین حصے تھے‘ گول سٹیڈیم میں دائرے کی صورت میں تماشائی بیٹھے تھے اور میدان کے درمیان میں بل فائیٹر سفید چست پتلون اور شرٹ پہن کر کھڑا تھا‘ اس کے سر پر رنگین ہیٹ تھا اور اس کے ہاتھ میں سرخ رنگ کا کپڑا تھا‘ سٹیڈیم میں ’’ہے تورو‘ ہے تورو‘‘ کے نعرے لگ رہے تھے‘ نعروں کی آوازوں کے درمیان لکڑی کا گیٹ کھلا اور خوف ناک بدمست بھینسا دوڑ کر میدان میں آ گیا اوراس کے بعد کھیل شروع ہو گیا‘ کھیل کے پہلے فیز میں بل فائیٹر سرخ رنگ کے کپڑے سے بل کو تھکانے میں مصروف ہو گیا‘ بل دور سے دوڑ کر آتا تھا‘ فائیٹر اسے کپڑے میں الجھا کر پائوں پر گھوم جاتا تھا اور بھینسا اسے چھوئے بغیر دور نکل جاتا تھا‘ یہ فیز دو گھنٹے جاری رہا‘ اس میں بھینسا بری طرح تھک گیا اور آخر میں ایک سائیڈ پر کھڑا ہو گیا‘

بل فائیٹر اس کے قریب پہنچ کر کپڑا لہراتا رہا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا‘ اس کے ساتھ ہی کھیل کا دوسرا فیز شروع ہو گیا‘ سٹیڈیم کے سائیڈگیٹس سے تین گھڑ سوار نکلے‘ ان کے ہاتھوں میں بڑے بڑے بھالے اور تیر کمان تھے‘ انہوں نے دور سے بھینسے کو تیر مارنا شروع کر دیے‘ردعمل میں بھینسا جان بچانے کے لیے بھاگنے پر مجبور ہو گیا‘ سوار بھی گھوڑوں پر اس کے پیچھے دوڑ پڑے‘ وہ اس کے قریب پہنچتے تھے‘ اسے بھالے سے زخمی کرتے تھے اور پھر دور بھاگ جاتے تھے‘ یہ سلسلہ بھی گھنٹہ بھر جاری رہا‘ بھینسا اس دوران زخمی ہوتا رہا اور اس کے زخموں سے خون رستا رہا یہاں تک کہ وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا‘ اس کے گرتے ہی بل فائیٹر دوبارہ سٹیڈیم میں داخل ہو گیااور یوں کھیل کا تیسرا فیز شروع ہو گیا‘ بل فائیٹر کے ہاتھ میں اس بار تلوار تھی‘ اس نے ننگی تلوار کے ساتھ پورے سٹیڈیم کا چکر لگایا‘ تماشائیوں نے سیٹیوں اور نعروں کے ساتھ اس کا استقبال کیا‘

وہ پورے سٹیڈیم کی داد وصول کرنے کے بعد نڈھال بھینسے کے سر پر پہنچا‘ تماشائیوں کی طرف مڑ کر دیکھااور تلوار فضا میں لہرادی‘ پورے سٹیڈیم نے ہاتھوں کے انگوٹھے زمین کی طرف ڈائون کر کے اسے بھینسے کا سر اتارنے کی اجازت دی اور بل فائیٹر نے بھینسے کی گردن پر تلوار کے وار شروع کر دیے‘ بھینسا آنکھوں میں خوف‘ بے چارگی اور رحم کی درخواست بھر کر اس کی طرف دیکھتا رہا اور قتل ہوتا رہا‘ اس کے خون کے فوارے اچھل کر سٹیڈیم کی گرم ریت پر گر رہے تھے‘ وہ تکلیف سے چلا رہا تھا لیکن ہجوم اس ظلم پر سیٹیاں بجا رہا تھا‘ اچھل کر بل فائیٹر کو داد دے رہا تھا اور وحشت میں نعرے لگا رہا تھا‘کھیل کے آخر میں سٹیڈیم کی ریت پر بھینسے کا سر اور دھڑ الگ الگ پڑا تھا‘ وہ منظر انتہا درجے کا وحشیانہ اور اذیت ناک تھا‘ میں نے جھرجھری لی اور سٹیڈیم سے نکل گیا جب کہ لوگ تالیاں اور سیٹیاں بجا رہے تھے اور سیٹوں پر کھڑے ہو کر ناچ رہے تھے۔

آپ اگر آج کے پاکستان کو دیکھیں تو آپ کو یہ ملک بھی بل فائیٹنگ کا رنگ محسوس ہو گا‘ اس رنگ کا بھینسا ہماری نیشنل سپرٹ ہے‘بل فائیٹر ہمارے حالات ہیں اورپوری دنیا اس کھیل کی تماشائی ہے اوریہ تالیاں پیٹ کر بل فائیٹرز کو داد دے رہی ہے‘ ہمیں پہلے سرخ کپڑے کے پیچھے دوڑا دوڑا کر بھینسے کی طرح باقاعدہ تھکایا گیا تھاجب ہم تھک کرٹوٹ گئے تو پھر ہم پر تیروں اور بھالوں سے وار کیے گئے‘ ہمیں زخمی کیا گیا تاکہ ہم اپنے پائوں پر کھڑے نہ رہ سکیں‘ ہم سٹیڈیم کی گرم ریت پر گریں اور اس کے بعد کھیل کے تیسرے فیز میں بل فائیٹر آگے بڑھ کر ہمارا سر کاٹ دے‘ یہ ہے کل سکیم‘ آپ سیاسی محاذ پر دیکھ لیجیے‘ عمران خان کبھی وزیراعظم سکیم میں شامل نہیں تھا‘ یہ فاسٹ بائولر تھا‘ اسے سیاست میں صرف تیز گیندیں پھینکنے کے لیے لایا گیا تھا‘ اس سے صرف ایک کام لیا جا رہا تھا‘ یہ جنرل مشرف کی وکٹوں پر حملہ کرتا رہے‘ یہ پیپلز پارٹی کی وکٹیں اڑاتا رہے اور آخر میں یہ میاں نواز شریف کو سانس نہ لینے دے اور بس آپ0 200ء سے 2017ء تک عمران خان کی سیاست دیکھ لیں‘

آپ کویہ اپنا فاسٹ بائولنگ کا کردار ٹھیک ٹھاک نبھاتا ہوا محسوس ہو گا‘ یہ کردار اسی سپرٹ کے ساتھ مزید چلنا تھا لیکن یہ کھیل اس وقت خراب ہوگیا جب جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید نے اسے وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا‘اس سے قبل عمران خان کو صادق اور امین اور عالم اسلام کا عظیم مجاہد ثابت کرنے کے لیے میڈیا کمپیئن کی گئی اور نوجوانوں کو اس کے گرد جمع کر دیا گیا اور اس کے بعد عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کی وکٹیں ہی اڑا دیں اور یہ مسلسل یہ کام کرتا چلا جا رہا ہے‘ اب جب بل فائیٹر رنگ میں موجود ہے تو پھر دوسرے کھلاڑی فائدہ کیوں نہ اٹھاتے چناں چہ بھینسے کے دوسرے دشمن بھی میدان میں کود پڑے اور انہوں نے بھی تیر اور بھالے چلانا شروع کر دیے‘ آپ کے پی اور بلوچستان کے حالات دیکھ لیں۔

دنیا میں اس وقت معیشت سب سے بڑا میدان جنگ ہے‘ آپ کے پاس اگر وسائل ہیں‘ انڈسٹری‘ ایکسپورٹس اور فارن ریزروز ہیں تو آپ کام یاب ہیں بصورت دیگر آج کی دنیا میں بھکاریوں‘ طفیلیوں اور معاشی محتاجوں کے لیے کوئی گنجائش نہیں‘ پاکستان سردست معاشی طفیلی‘ محتاج اور بھکاری ہے‘ ہم چین‘ سعودی عرب اور یو اے دی کی مدد کے بغیر آئی ایم ایف کو بھی قائل نہیں کر پا رہے اگر یہ تین ملک ہمارے خزانے میں جمع اپنی رقم واپس مانگ لیں تو آئی ایم ایف فوراً بھاگ جائے گا اور یوں ہم ڈیفالٹ کر جائیں گے‘ ہمیں اس صورت حال سے صرف معاشی استحکام بچا سکتا ہے اور یہ استحکام اب صرف معدنیات اور قدرتی وسائل سے ممکن ہے‘ انڈسٹری‘ سکل ڈویلپمنٹ اور نیشن بلڈنگ کے لیے کم از کم تیس سال چاہییں اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں‘ ہم فوری طور پر زمین‘ مائینز اور منرلز بیچ کر ہی موجودہ معاشی گرداب سے نکل سکتے ہیں‘ اس حقیقت سے ہمارا ازلی دشمن بھی اچھی طرح واقف ہے‘ بھارت جانتا ہے ہم اگر معاشی طور پر اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے تو ہم اسے سکون سے نہیں بیٹھنے دیں گے‘

ہم پھر اس سے کشمیر بھی مانگیں گے‘ اپنے دریائوں کا پانی بھی اور ماضی کے مظالم کا حساب بھی‘ اس کا خیال ہے ہم ڈان ہیں اورڈان جب تک اپنے مسئلوں میں پھنسا رہتا ہے دوسرے اس وقت تک اس سے محفوظ رہتے ہیں جس دن ڈان مسائل سے آزاد ہو جائے یا اس کے دانے پورے ہو جائیں تو وہ آنکھ کھول کر دائیں بائیں دیکھتا ہے اور پھر سب کو کان پکڑا دیتا ہے چناں چہ بھارت چاہتا ہے ہم اپنے مسئلوں سے آزاد نہ ہو سکیں‘ ہم اپنے اندرونی مسائل میں اتنے مصروف رہیں کہ ہمیں بھارت یاد آئے اور نہ کشمیر اور نہ ہی خشک دریائوں کا پانی چناں چہ اس نے ہمیں کے پی اور بلوچستان میں الجھا رکھا ہے‘ اب سوال یہ ہے بلوچستان اور کے پی کیوں؟ بھارت سندھ اور پنجاب میں چھیڑچھاڑ کیوں نہیں کر رہا؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ اول پنجاب اور سندھ کا معیار تعلیم دوسرے دونوں صوبوں سے بہتر ہے لہٰذا یہاں کے لوگ نسبتاً سمجھ دار ہیں‘ یہ جلد پروپیگنڈے میں نہیں آتے‘

دوم سندھ اور پنجاب میں کوالٹی آف لائف بہتر ہے‘ لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں‘ ان کے پاس بجلی‘ سڑک‘ سکول‘ ہسپتال‘ مکان اور روزگار کے ذرائع ہیں اور جہاں یہ تمام سہولتیں موجود ہوں وہاں بغاوت کے امکانات کم ہوتے ہیں‘ انقلاب فرانس‘ انقلاب روس اور انقلاب ایران بھی شہر کے لوگ نہیں لے کر آئے تھے‘ یہ بھی کسانوں اور مزدوروں کا کمال تھا اور وہ لوگ دور دراز علاقوں سے دارالحکومتوں میں آئے تھے اور انہوں نے بادشاہوں سے پہلے بڑے شہروں کے امراء کو اپنا لقمہ بنایا تھا چناں چہ پنجاب اور سندھ دشمنوں سے بچے ہوئے ہیں اور ان کا فوکس کے پی اور بلوچستان ہیں‘ اس فوکس کی بھی اب دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ تعلیم اور روزگار کی کمی ہے‘ یہ علاقے تعلیم بالخصوص سکلڈ ایجوکیشن میں پیچھے ہیں اور اس وجہ سے یہاں بے روزگاری ہے اور دوسری وجہ دونوں صوبوں کی زمین میں خزانے چھپے ہیں‘ بلوچستان میں سونے‘ تانبے‘ لوہے اور کوئلے اور کے پی میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر ہیں ‘ یہ ذخائر چند برسوں میں ملک کو معاشی لحاظ سے قدموں پر کھڑا کر سکتے ہیں اور یہ بھارت کے لیے قابل قبول نہیں چناں چہ اس وقت بل فائیٹنگ کے رنگ میں موجود بھینسے پر دو طرف سے حملے ہو رہے ہیں‘

اندرونی حملے اور بیرونی حملے‘ اندرونی محاذ پر عمران خان اور ان کے خودکش نوجوان سرگرم ہیں‘ عمران خان بے شک اس وقت مقبول ترین لیڈر ہیں لیکن یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی مقبولیت کے کندھے پر بیٹھ کر اقتدار میں آئے تھے‘ زیلنسکی نے یوکرین کو ملبے کا ڈھیر بنوا دیا جب کہ ٹرمپ امریکا کے ساتھ پوری دنیا کو تباہ کر رہے ہیں‘ عمران خان بھی اگر مقبولیت کی وجہ سے اقتدار میں آگیا تو یہ اس ملک کا کیا حشر کرے گا آپ سوچ بھی نہیں سکتے‘ ان کے پاس ایسا ایسا گنڈا پور موجود ہے کہ آپ کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور یہ بھی اس شکل میں ممکن ہو گا جب ہاتھ یا کان بچ سکیں گے جب کہ بیرونی محاذ پر بھارت سرگرم عمل ہے‘ یہ نہیں چاہتا کے پی اور بلوچستان میں امن آئے‘ کیوں؟ کیوں کہ اگر یہاں امن ہو گیا تو پاکستان تیل بھی نکال لے گا اور سونا اور تانبا بھی اور اگر یہ ہو گیا تو یہ معاشی طور پر قدموں پر کھڑا ہو جائے گا لہٰذا سوچیں اگر غریب پاکستان بھارت کے لیے اتنی بڑی تھریٹ ہے تو یہ امیر ہونے کے بعد اس کے ساتھ کیا کرے گا؟۔

آپ اگر اس سیناریو پر غور کریں تو آپ پھرچند لمحوں میں سمجھ جائیں گے‘ 8اپریل کو جب اسلام آباد میں منرلز سمٹ ہو رہی ہے‘اس میں دنیا بھر سے سرمایہ کار آ رہے ہیں اور عین اس وقت اختر مینگل کوئٹہ کا محاصرہ کر رہے ہیں اور بی ایل اے پاکستان سے علیحدگی کا نعرہ لگا رہی ہے‘ کیوں؟ آپ اس کیوں کا جواب تلاش کریں گے تو آپ کو بل فائیٹنگ کا یہ سارا کھیل سمجھ آ جائے گا۔

موضوعات:



کالم



بل فائیٹنگ


مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…

آپ کی امداد کے مستحق دو مزید ادارے

یہ2006ء کی انگلینڈ کی ایک سرد شام تھی‘پارک میںایک…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے (دوسرا حصہ)

بلوچستان کے موجودہ حالات سمجھنے کے لیے ہمیں 1971ء…

بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ (پہلا حصہ)

قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں…

اچھی زندگی

’’چلیں آپ بیڈ پر لیٹ جائیں‘ انجیکشن کا وقت ہو…

سنبھلنے کے علاوہ

’’میں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑا تھا اور وہ مجھے…