ہفتہ‬‮ ، 11 جنوری‬‮ 2025 

پہلے درویش کا قصہ

datetime 12  جنوری‬‮  2025
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں بیٹھا تھا‘ میری اس دن فارن کمپنی کے ساتھ میٹنگ تھی‘ میں تیار ہو کر آفس آیا تھا‘ اٹالین سوٹ پہن رکھا تھا‘ جوتے چمک رہے تھے اور کلائی پر رولیکس کی گھڑی تھی‘ میں میٹنگ کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک میری سیکرٹری بھاگتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور گھبرائے ہوئے لہجے میں مجھے بتایا‘ سر باہر پولیس آئی ہے اور وہ آپ کا پوچھ رہی ہے‘ میں حیران ہوگیا اور اسی حیرت میں پولیس کو اندر بلا لیا‘ وہ اے ایس آئی تھا اور اس کے ساتھ دو کانسٹیبل تھے‘ وہ مجھے گرفتار کرنے آئے تھے‘میں نے تفصیل پوچھی تو پتا چلا میں نے دو سال قبل کسی کی ضمانت دی تھی‘

وہ پہلے عدالت سے غائب ہوا اور پھر ملک سے بھاگ گیا‘ عدالت دو سال اسے اور مجھے بلاتی رہی لیکن نوٹسز مجھ تک نہیں پہنچے چناں چہ جج نے مجھے گرفتار کر کے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا‘ اے ایس آئی نے مجھے تھانے چلنے کا حکم دے دیا‘اس کے لہجے میں رعونت تھی‘ اس کا کہنا تھا آپ اٹھیں‘ ہم نے ابھی آپ کوتھانے اور پھر عدالت میں پیش کرنا ہے‘ یہ صورت حال میرے لیے بالکل نئی تھی‘ مجھے معلوم نہیں تھا ان حالات میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟مجھے اس کا لہجہ برا لگا چناں چہ میں نے اسے ڈانٹ دیا‘ میری ڈانٹ سن کر اے ایس آئی ناراض ہو گیا‘ اس نے کانسٹیبلز کو اشارہ کیا‘ وہ دونوں آگے بڑھے اور مجھے دونوں بازوئوں سے پکڑ لیا‘ میں بپھر گیا اور میری دونوں سے ہاتھا پائی ہو گئی‘ میرا سٹاف بھی اندر آ گیا ‘ وہ بھی پولیس والوں سے الجھ پڑا‘ اے ایس آئی نے وائرلیس پر پیغام دے دیا اور چند لمحوں میں پولیس نے میرے دفتر کو گھیر لیا‘ علاقے میں آدھ گھنٹے میں پولیس ہی پولیس تھی‘ میرے دفتر کے سارے شیشے توڑ دیے گئے‘ فرنیچر خراب کر دیا گیا اور آخر میں وہ مجھے اور میرے سٹاف کو گھسیٹ کر تھانے لے گئے‘ پولیس نے میرے اوپر پولیس کی وردی پھاڑنے اور کارسرکار میں مداخلت کا پرچہ بھی کر دیا‘ مجھے اٹھا کر حوالات کے گندے فرش پر پھینک دیا گیا‘ میں نے اٹالین سوٹ پہنا ہوا تھا‘ میرا سوٹ بھی گندا ہو گیا اور مجھے بدبودار مکھیوں اور مچھروں سے بھری حوالات میں بھی بیٹھنا پڑ گیا‘ وہاں واش روم تھا‘ پنکھا تھا اور نہ پانی کا بندوبست ‘اوپر سے جولائی کا مہینہ‘ میں ڈیڑھ گھنٹے میں عرش سے فرش پر آ چکا تھا‘‘۔

وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور پھر تھرتھراتی آواز میں بولا ’’میرے لیے یہ صورت حال غیر متوقع تھی‘ مجھے معلوم ہی نہیں تھا ان حالات میں کیا کرنا چاہیے؟ افراتفری میں میری دو کروڑ کی رولیکس گھڑی بھی کہیں گر گئی تھی یا کسی کانسٹیبل نے میرے ہاتھ سے اتار لی تھی‘ بہرحال میرے دوست آئے‘ انہوں نے وکیلوں کا بندوبست کیا‘ میں نے پولیس سے اپنے رویے پر معافی بھی مانگی لیکن پولیس راضی نہ ہوئی‘ اس نے اگلے دن جج سے میرے خلاف تین دن کا ریمانڈ لے لیا‘ پولیس نے ان تین دنوں میں مجھے جی بھر کر ذلیل کیا‘ وہ مجھے پورے دن میں آدھ گھنٹے کے لیے حوالات سے نکالتے تھے‘ میں نے اس آدھ گھنٹے میں واش روم بھی کرنا ہوتا تھا‘ فیملی اور وکیل سے ملاقات بھی اور ایس ایچ او کے منت ترلے بھی‘ مجھے کپڑے تک نہ دیے گئے اور غسل کرنے کی اجازت بھی نہ ملی‘ تین دنوں میں میرا پورا حلیہ بدل گیا‘ داڑھی بڑھ گئی‘ آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے‘ مچھروں نے کاٹ کاٹ کر میرا پورا جسم سُجا دیا‘ میرا وہ سوٹ جس پر میں ناز کرتا تھا وہ چیتھڑا بن کر لٹک گیا‘ جرابیں گندی ہو گئیں اور پسینے اور ڈسٹ کی وجہ سے میرے پورے جسم سے بو آ نے لگی‘ وہ تین دن میری زندگی کے مشکل ترین دن تھے‘

میں سو سکا اور نہ لیٹ سکا‘ پولیس کے معمولی اہلکار مجھے جی بھر کر بے عزت کرتے تھے‘ مجھے محسوس ہوا شریف لوگوں کو ذلیل کر کے پولیس کو بہت تسکین ہوتی ہے‘ یہ شاید ان کی زندگی کی واحد انٹرٹینمنٹ ہے‘‘ وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور پھر ہنس کر بولا ’’وہ ضمانت کا معمولی سا کیس تھا لیکن میں نے اپنی ناتجربہ کاری اور بے وقوفی کی وجہ سے اسے پھیلا کر بڑا بنا دیا تھا‘مجھ پر تین اور مقدمات بن چکے تھے‘ بہرحال تین دن بعد مجھے عدالت میں پیش کیا گیا‘ میرا وکیل چیختا رہا مگر جج نے مجھے جیل بھجوا دیا‘ میں جوں ہی جیل کے پھاٹک کے اندر داخل ہوا وہاں دنیا ہی مختلف تھی‘ دروازے سے لے کر کوٹھڑی تک بے عزتی‘ اذیت‘ ذلت اور قلت‘ اللہ دشمن کو بھی وہ جگہ نہ دکھائے‘ مجھے ایک ایسے چھوٹے سے سیل میں رہنا پڑا جس میں بیس لوگ رہ رہے تھے‘ میں کروٹ نہیں بدل سکتا تھا‘

میرے سر پر دوسرے قیدی کے پائوں ہوتے تھے‘ واش روم بھی سیل کے اندر تھا‘ اسے بیس لوگ استعمال کرتے تھے اور اس کی بو سے سر چکرا جاتا تھا‘ اس وقت میری زندگی کا سب سے بڑا مقصد جیل سے باہر آنا تھا اور میں اس کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے تیار تھا لیکن جب مصیبت آتی ہے تو یہ یاد رکھیں انسان کی مت ماری جاتی ہے اور یہ ایک کے بعد دوسری غلطی کرتا چلا جاتا ہے‘ میں بھی غلطی پر غلطی کرتا چلا گیا‘ میں نے بڑا اور مہنگا وکیل کر لیا‘ اس نے مجھ سے ڈیڑھ کروڑ فیس لے لی لیکن وہ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں مصروف رہتا تھا‘ اس کے پاس میرے کیس کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا‘ اس کا جونیئر وکیل عدالت میں آتا تھا اور جج اسے دیکھتے ہی اگلی تاریخ دے دیتا تھا‘ پولیس اور سرکاری وکیل کو بھی مجھ سے کوئی دل چسپی نہیں تھی‘ وہ بھی اگلی تاریخ لے لیتے تھے اور یوں میری قید لمبی ہوتی چلی گئی‘ میری بیوی سے اس دوران کئی جعل ساز ججوں اور پولیس کے نام پر لاکھوںروپے لوٹ کر لے گئے‘

میرا دفتر اور بزنس تباہ ہو گیا‘ کمیونٹی میں بے عزتی اس کے علاوہ تھی‘ اس دوران میری والدہ علیل ہو گئیں اور ہسپتال پہنچ کر انتقال کر گئیں‘ میرے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ رک گیا اور میری بیوی کے دن عدالتوں‘ وکیلوں کے چیمبرز اور پولیس کے پیچھے دوڑتے ہوئے گزرنے لگے‘ میرے دوست احباب نے شروع شروع میں میرا ساتھ دیا لیکن پھر یہ بھی غائب ہوگئے‘ آخر کون کسی کے لیے اتنی بھاگ دوڑ کرتا ہے‘ ہر شخص کی زندگی میں بیسیوں پھڈے ہوتے ہیں‘ میرے ملازمین اس دوران دفتر کی کرسیاں‘ میزیں اور کمپیوٹر تک اٹھا کر لے گئے‘ بینک کے ملازمین کو میری صورت حال کا پتا چلا تو انہوں نے میرے اکائونٹینٹ کے ساتھ مل کر میرا اکائونٹ خالی کر دیا‘ میں نے جس جس سے رقم لینی تھی وہ میرا پیسہ کھا گئے اور جس نے مجھ سے پیسے لینے تھے وہ آ کر میرے گھر بیٹھ گیا اور میری پراپرٹیز پر کرائے داروں نے قبضہ کر کے اسے آگے بیچ دیا‘ یہ سارے کام ایک آدھ مہینے میں ہو گئے یوں محسوس ہوتا تھا پوری دنیا چیل بن کر میرے گرنے کا انتظار کر رہی تھی بس میرے حوالات جانے کی دیر تھی اور یہ سب میرے اثاثوں میری کمائی پر پل پڑے‘‘۔

وہ رکا‘ لمبی سانس لی‘ آنسو پونچھے اور پھر بولا ’’جاوید صاحب میرا کیس چند منٹوں کا تھا‘ میں نے کسی کی ضمانت دی تھی‘ میرے پانچ مرلے کے ایک مکان کے کاغذات عدالت میں بطور ضمانت پڑے تھے‘ وہ شخص بھاگ گیا اور عدالت نے مجھے طلب کر لیا‘ مجھے عدالت سے نوٹس نہیں ملے‘ جج نے میرا ریمانڈ جاری کر دیا تھا‘ میں نے بس عدالت میں پیش ہونا تھا‘ جج نے مجھے وکیل کی اجازت دے دینی تھی اور میرا کیس معمول کے مطابق چلتا رہتا‘ اس دوران زیادہ سے زیادہ کیا ہو جاتا؟ عدالت میرا پانچ مرلے کا مکان ضبط کر لیتی‘ یہ میرے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا لیکن میں نے اپنی بے وقوفی‘حماقت اور غرور کی وجہ سے چھوٹے سے معاملے کو پھیلا دیا اور یہ وقت گزرنے کے ساتھ پھیلتا چلا گیا اور میں ایک ایسی ڈھلوان پر آ گرا جس کا ہر قدم مجھے نیچے سے نیچے لے کر جا رہا تھا‘

میری زندگی جھنڈ ہو گئی تھی‘ بہرحال قصہ مختصر مجھے جیل سے باہر آنے میں دس مہینے لگ گئے‘ ان دس مہینوں میں کبھی جج چھٹیوں پر چلا جاتا تھا‘ کبھی میرا وکیل‘ کبھی سرکاری وکیل اور اگر کسی دن یہ سب لوگ موجود ہوتے تھے تو شہر میں ہڑتال ہو جاتی تھی چناں چہ میرا کیس موخر ہو جاتا تھا‘ بہرحال بے شمار صدقوں‘ منتوں اور اللہ تعالیٰ سے معافی کے بعد میری ضمانت ہو گئی‘ آپ یقین کریں میں جس دن جیل سے باہر آیا اس دن مجھے اللہ تعالیٰ کی ایک ‘ایک نعمت کا اندازہ ہوا‘ میں نے دس ماہ بعد جب سڑک پر چلتی ہوئی گاڑیاں دیکھیں تو میں بچوں کی طرح خوش ہو گیا‘ میں فٹ پاتھ پر چلتا تھا‘ رکتا تھا‘ سڑک کراس کر کے دوسرے فٹ پاتھ پر جاتا تھا‘ وہاں چلتا تھا اور پھر دائیں بائیں دیکھ کر خوش ہوتا تھا‘ مجھے کوئی شخص روک نہیں رہاتھا‘ میں نے گھر پہنچ کر جی بھر کر ٹی وی دیکھا‘ میں ریموٹ کنٹرول سے چینل بدلتا تھا اور خوشی سے قہقہہ لگاتا تھا‘ میں دن میں تین تین بار نہاتا تھا اور مجھے شاور کے نیچے کھڑے ہو کر گرتا ہوا پانی محسوس کر کے بے انتہا خوشی ہوتی تھی‘ آپ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے سوچ ہی نہیں سکتے موبائل فون کتنی بڑی نعمت ہوتا ہے‘

مرضی کا کھانا‘ مرضی کی چائے‘ اپنی فیملی اور دوست احباب سے ملاقات‘ مرضی کے کپڑے‘ مرضی کے جوتے‘ اپنا بستر‘ اپنا اے سی‘ اپنا پنکھا‘ اپنا ہیٹر‘ پرفیوم کی اپنی بوتل یا بوتلیں‘ پارک میں واک‘ سردیوں میں گھنٹوں دھوپ میں بیٹھنا اور گرمیوں میں ٹھنڈا کمرہ‘ صاف پانی اور اپنی مرضی کا کافی کا کپ اور کسی بھی وقت کسی سے بھی ملاقات دنیا میں اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہوتی اگر یقین نہ آئے تو آپ دس ماہ جیل میں گزار کر دیکھیں آپ کو ایک ایک چیز کی قدر ہو جائے گی‘ آپ یقین کریں جیل کے ان دس مہینوں کے بعد زندگی سے میرے سارے شکوے ختم ہو گئے ‘ میں اب کھانے پر اعتراض کرتا ہوں اور نہ اجنبیوں سے ملاقات سے‘ جیل جا کر معلوم ہوا اللہ تعالیٰ نے ہمیں کس کس نعمت سے نواز رکھا ہے‘ مجھے وہاں جا کر پتا چلا اپنی مرضی سے فٹ پاتھ پر چلنا بھی اللہ کا کتنا بڑا انعام ہوتا ہے؟‘‘ وہ خاموش ہو گیا۔
ہمارے ساتھ دوسرا درویش بھی بیٹھا تھا‘ وہ یہ کہانی سن کر سیدھا ہوا اور بولا ’’لو پھر میں تمہیں اس سے بھی زیادہ بڑی کہانی سناتا ہوں‘‘۔

موضوعات:



کالم



پہلے درویش کا قصہ


پہلا درویش سیدھا ہوا اور بولا ’’میں دفتر میں…

آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے

پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…