میں ایف سی کالج میں چند ہفتے یہ مذاق برداشت کرتا رہا جب ہمت جواب دے گئی تو میں نے کالج چھوڑ دیا اور امتحان کی پرائیویٹ تیاری شروع کر دی‘ اللہ تعالیٰ نے میرے لیے دوسرا راستہ پسند کر رکھا تھا چناں چہ میں نے فرسٹ کلاس میں بی اے کر لیا‘ بی اے کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں لاء میں داخلہ لے لیا‘ اس دوران میرے ایک دوست کا داخلہ بہاولپور یونیورسٹی کے جرنلزم ڈیپارٹمنٹ میں ہو گیا‘ میں اسے چھوڑنے بہاولپور گیا‘ اس کے ساتھ پہلی کلاس اٹینڈ کی اور پھر صحافت میں داخلہ لے لیا۔
آپ یقین کریں میری کلاس میں 22 طالب علم تھے‘ ان میں سے صرف ایک کلاس فیلو تھا خالد وکیل جسے شاعری کا شوق تھا اور اس نے فیض احمد فیض‘ ن م راشد اور احمد فراز پڑھ رکھے تھے ‘ اسے یہ تمام شاعر ازبر تھے اور وہ بہت شان دار طریقے سے انہیں پڑھتا تھا‘ اس کے علاوہ قدرت اللہ کو کتابیں پڑھنے کا شوق تھا‘ اس کی سپیڈ بھی زیادہ تھی‘ یہ بعدازاں ڈی جی پی آر میں بھرتی ہو گیا اور کار سرکار کا پرزہ بن گیا‘ ہمارا ایک کلاس فیلو مرزا ادریس بھی تھا‘ اسے ناول اور افسانے اچھے لگتے تھے اور اس کی تحریر میں روانی اور چاشنی بھی تھی‘ ان کے علاوہ کوئی شخص لائبریری جاتا تھا‘ کتابیں خریدتا تھا اور نہ انہیں پڑھنے کی غلطی کرتا تھا‘ یہ غلطی ہمارے استاد بھی نہیں کرتے تھے‘ ان کا خیال تھا اللہ تعالیٰ نے ان پر براہ راست علم اتار دیا ہے چناں چہ انہیں اب کتابوں سے اپنے ہاتھ گندے کرنے کی کوئی ضرورت نہیں‘ میں نے اس زمانے میں بھی جی بھر کر بے عزتی کرائی‘ جی بھر کر مذاق اڑوایا‘ یونیورسٹی کے بعد عملی زندگی شروع ہو گئی‘ میں نے صحافت جوائن کر لی‘ ہمارے ڈیسک پر صرف دو لوگ تھے جنہیں کتابیں پڑھنے کا شوق تھا اور دونوں کو روزانہ اس نالائقی کی سزا بھگتنا پڑ تی تھی‘ دونوں روز شرمندہ ہوتے تھے جب کہ باقی سب کا مطالعہ اخبارات تک محدود تھا‘
ہمیں اس زمانے میں یہ لوگ عجیب لگتے تھے لیکن آج جب نوجوان اخبارات کے مطالعے سے بھی محروم ہیں اور میڈیا کے طالب علم یا میڈیا پرسنز ہونے کے باوجود اخبارات نہیں پڑھتے تو مجھے اپنا زمانہ بہت علمی اور دانشورانہ محسوس ہوتا ہے‘ ہمارے سینئر بھی کتابوں سے دور تھے مگر وہ لوگ اخبارات تفصیل سے پڑھتے تھے تاہم انہوں نے بچپن اور جوانی میں جم کر کتابیں پڑھی تھیں مگر چالیس پچاس سال کی عمر میں پہنچ کر وہ مطالعے سے اکتا گئے تھے یا پھر اس زمانے کی کتابیں ان کے معیار سے پست تھیں ‘ وجہ کچھ بھی ہو لیکن انہوں نے اپنے آپ کو خبروں اور کالمز تک محدود کر لیا تھا‘میں آج اپنے 32 سال کے صحافتی کیریئر میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے تین چار صحافیوں کے علاوہ کوئی جرنلسٹ جم کر مطالعہ کرتے نہیں ملتا‘ مجھے سیاسی لاٹ میں بھی صرف دو لوگ ملے جنہیں ہم وسیع المطالعہ کہہ سکتے ہیں‘ ایک احسن اقبال ہیں اور دوسرے خرم دستگیر ان کے علاوہ میںنے کسی کو کتابوں سے ہاتھ میلے کرتے نہیں دیکھا‘ مجھے اب مصطفی نواز کھوکھر اور افنان اللہ میں بھی مطالعے کا شوق اور ذوق نظر آتا ہے‘
چودھری اعتزاز احسن اور رضا ربانی سینئر اور بڑی حد تک ریٹائرڈ سیاست دان ہیں‘ یہ بھی مطالعہ کرتے تھے‘ پی ٹی آئی پڑھی لکھی پارٹی ہے مگر اس میں زیادہ تر عثمان بزدار جیسے دانشور بھرے ہوئے ہیں‘ عمران خان آج کل جیل میں جو کتابیں پڑھ رہے ہیں اور جن پر یہ بہت اتراتے پھر رہے ہیں یہ ہم لوگوں نے دس بیس سال پہلے پڑھ کر ہضم کر لی تھیں اور ان کی بے شمار تھیوریاں غلط بھی ثابت ہو چکی ہیں‘مجھے سول بیوروکریسی میں دو لوگ ایسے ملے جن کے مطالعے اور علم سے باقاعدہ حسد محسوس ہوتا ہے‘ پہلے کسٹم آفیسر عرفان جاوید ہیں اور دوسرے ایس ایس پی عمر ریاض ہیں‘ یہ دونوں کتابوں کے کیڑے ہیں اور دنیا کی ہر نئی اور حیران کن کتاب ان کے شکم مطالعہ کا حصہ ضرور بنتی ہے‘ ہمیں یہاں افواج پاکستان کا ذکر ضرور کرنا چاہیے‘ فوج میں مطالعے کا رجحان آج بھی قائم ہے‘ مطالعہ پریڈ کی طرح فوجی مزاج کا حصہ ہے لہٰذا یہ لوگ عام لوگوں کے مقابلے میں زیادہ پڑھتے ہیں۔
ہم اگر دنیا کو ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ‘ مہذب اور غیر مہذب اور پرامن اور بدامن دنیا میں تقسیم کریں تو ہمیں یہ مانناہو گا دنیا کے تمام پرامن‘ تہذیب یافتہ اور ترقی یافتہ معاشروں میں کتاب روٹی‘ کپڑا اور مکان جتنی اہم ہوتی ہے بلکہ بعض معاشروں میں یہ ان بنیادی ضرورتوں سے بھی اہم سمجھی جاتی ہے‘ ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ملکوں کے درمیان صرف کتاب کا فاصلہ ہوتا ہے جس دن غیر ترقی یافتہ‘ بے امن اور بدتہذیب لوگ اور معاشرے کتابوں کے ساتھ جڑ جاتے ہیں اس دن ان کا ڈی این اے بدلنے لگتا ہے اور پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں کام یاب اور ترقی یافتہ ہونے سے باز نہیں رکھ سکتی‘ آپ آج بھی ریڈنگ کا گلوبل ڈیٹا جمع کر لیں آپ کو کتابیں پڑھنے والا ہر معاشرہ ترقی یافتہ ملے گا اور جس ملک میں کتاب سے نفرت ہو گی آپ کو وہ پس ماندہ‘ بدامنی کا شکار‘ شدت پسند اور غریب ملے گا‘ دوسرا آپ یہ حقیقت بھی یاد رکھیں مطالعہ ایک عادت ہوتی ہے اوریہ عادت بھی دوسری عادتوں کی طرح کوشش سے اختیار کی جاتی ہے‘
ہم جس طرح بچوں کو دانت اور ہاتھ صاف کرنے‘ تین وقت کھانا کھانے اور بزرگوں کے احترام اور نماز روزے کی عادت ڈالتے ہیں بالکل اسی طرح مطالعے کی عادت بھی بچپن سے ڈالی جاتی ہے اور یہ آہستہ آہستہ پختہ ہوتی ہے جب کہ ہمارے معاشرے میں کسی بھی سطح پر مطالعہ کی عادت نہیں‘ آپ تعلیمی اداروں پر ریسرچ کر لیں آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے 90 فیصد اداروں میں لائبریریاں ہی نہیں ہیں جن میں ہیں ان میں کتابیں نہیں ہیں اور اگر کتابیں ہیں تو یہ لایعنی اور بے مقصد ہیں اور ان کتابوں کو بھی کوئی نہیں پڑھتا‘ میں یونیورسٹیوں میں لیکچر کے لیے جاتا ہوں تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا ہوں پروفیسرز بلکہ وائس چانسلرز تک کتابوں سے پرہیز کرتے ہیں‘
عملی زندگی میں ہمارے لیے کتاب شجر ممنوع ہے‘آپ کو شہروں میں کھانے پینے کی سینکڑوں دکانیں ملیں گی لیکن کتابوں کی ایک آدھ دکان ہوگی اور اس کی سیل میں بھی سٹیشنری اور سلیبس کی شرح زیادہ ہو گی‘ یہ رجحان بھی ایک حد تک قابل برداشت تھا لیکن ہمارے معاشرے میں کتابیں پڑھنے والوں کو بھی پسند نہیں کیا جاتا ‘ ایوان صدر سے لے کر گلی محلوں تک کتابیں پڑھنے والوں کا مذاق اڑایا جاتا ہے‘ ان کی باقاعدہ بے عزتی کی جاتی ہے اور انہیں دھکیل کر احساس کمتری کے گڑھے میں پھینک دیا جاتا ہے‘ میرے ساتھ بے شمار ایسے لڑکے اور لڑکیاں پڑھتے تھے جو صلاحیت اور عقل میں مجھ سے کہیں آگے تھے‘ وہ اگر مطالعہ کی عادت جاری رکھتے تو آج وہ اہم پوزیشنز پر ہوتے مگر وہ کسی نہ کسی چچا زمان‘ کسی نہ کسی ماسٹر محمد خان اور کسی نہ کسی پروفیسر لطیف کے مذاق‘ بے عزتی اور مار کی وجہ سے ترقی کی دوڑ سے باہر ہو گئے‘ وہ برباد معاشرے کی برباد اینٹیں بن کر رہ گئے‘
میری آپ سے درخواست ہے آپ بے شک کتابوں سے نفرت کریں‘ آپ بے شک خود نہ پڑھیں لیکن خدا کے لیے جو آدھ فیصد لوگ کتابیں پڑھ رہے ہیں آپ کم از کم انہیں بے عزت نہ کریں‘ آپ انہیں ذلیل نہ کریں‘ یہ لوگ گنڈویا‘ کیڑے‘ مولانا‘ پروفیسر اور بغلول ہی سہی لیکن یہ اس کے باوجود انسان ہیں‘ آپ انہیں کم تر انسان ہی سمجھ لیں‘ آپ انہیں بے شک اچھوت سمجھ لیں مگر ان کی عزت نفس کو نہ کچلیں‘ ان کا مذاق نہ اڑائیں‘ میرے جیسے پاگل لوگ کسی نہ کسی طرح گھسٹ کر آگے نکل آتے ہیں لیکن یہاں تک آتے آتے ہماری روح اور ہمارے ذہن میں اتنی خراشیں‘ اتنی رگڑیں پڑ چکی ہوتی ہیں کہ ہم نارمل زندگی نہیں گزار پاتے‘ آپ یقین کریں میں اپنی ذات میں اتنا ڈرا ہوا ہوں کہ میں آج بھی لوگوں کے سامنے کتاب نہیں پڑھ سکتا‘ مجھے آج تک کسی نے کتابیں اٹھا کر گھومتے پھرتے یا عوامی جگہ پر پڑھتے نہیں دیکھا ہو گا‘ میں آج بھی کتاب کو بیڈروم میں لے کر جاتا ہوں اور دروازہ بند کر کے پڑھتا ہوں اور اگر اس دوران کوئی اندر آ جائے تو میں گھبرا کر سب سے پہلے کتاب کو سائیڈ پر رکھتا ہوں‘ میرے اندر بچپن اور جوانی کا خوف اس قدر بیٹھ چکا ہے اور یہ صورت حال صرف مجھ تک محدود نہیں بلکہ میرے جیسے اور بھی ہزاروں لوگ ہوں گے‘ کیا یہ افسوس ناک نہیں ؟۔
مجھے چند ماہ قبل ملک کے ایک طاقتور شخص کے پاس جانے کا اتفاق ہوا‘ وہ وسیع المطالعہ تھے‘ میں نے جب ان کے ذوق مطالعہ کی تعریف کی تو ان کا جواب تھا آپ پلیز باہر کسی سے یہ ذکر نہ کیجیے گا‘ میں ایک کیریئر آفیسر ہوں‘ لوگ مجھے پروفیشنل دیکھنا چاہتے ہیں اگر انہیں میری اس ’’حرکت‘‘ کاعلم ہو گیا تو یہ مجھے شاعر‘ ادیب کہنا شروع کر دیں گے اور یہ ٹائٹل ہماری سروس میں اچھا نہیں سمجھا جاتا‘ اسی طرح چند برس قبل میں وزیراعظم کا انٹرویو کرنے گیا‘ اس وقت کے پریس سیکرٹری وسیع المطالعہ تھے‘ ان کے پاس دنیا جہاں کی بائیوگرافیز ہیں‘
میں جس کتاب کا نام لیتا تھا وہ نہ صرف ان کی لائبریری میں تھی بلکہ وہ اسے پڑھ بھی چکے ہوتے تھے‘ میں نے دل کھول کر ان کی تعریف کی‘ میں جب وزیراعظم کے کمرے میں جانے لگا تو انہوں نے منت کرنے کے لہجے میں کہا’’ آپ پلیز وزیراعظم کے سامنے میری پڑھنے کی بیماری کا ذکر نہ کیجیے گا‘ میرا ٹرانسفر ہو جائے گا‘ وزیراعظم کو ایک میڈیا منیجر چاہیے پروفیسر نہیں‘‘ میں نے قہقہہ لگایا اور اندر چلا گیا‘ آپ المیہ دیکھیں‘اس پریس سیکرٹری کو پوری بیوروکریسی طنزاً پروفیسرکہتی ہے اور میں اپنے آپ کو رو رہا ہوں جب کہ یہاں فیڈرل سیکرٹری مطالعے کی وجہ سے ذلیل ہو رہے ہیں۔ (ختم شد)