یہ چند سال پہلے کی بات ہے اور شہر تھا وینس۔ وینس اٹلی کا خوبصورت‘ قابل دید اور رومانوی شہر ہے‘ یہ شہر صدیوں سے پانی میں ڈوبا ہوا ہے‘ نہریں شہر کی گلیاں ہیں اور موٹر بوٹس اور گنڈولے عوامی سواری۔ مارکوپولو اسی شہر کا باسی تھا‘ مارکو پولو کا گھر آج بھی یہاں موجود ہے‘ دنیا کی قدیم ترین کمپنیاں وینس سے تعلق رکھتی ہیں‘ کرسٹل کی اشیاء بنانے والی ایک فرم نبی اکرمؐ کی ولادت سے دو سال قبل بنی‘ یہ آج تک قائم ہے‘ دوسری فرم اس وقت بنی جب حضرت عیسیٰ ؑ نے تبلیغ کا کام شروع کیا‘
یہ فرم بھی آج تک سلامت ہے ‘ وینس شہر میں دنیا کا قدیم ترین کیسینو بھی ہے‘ یہ حیران کن شہر ہے‘ مجھے اس شہر میں چار بار جانے کا اتفاق ہوا‘ میں چند سال قبل دو دوستوں کے ساتھ وینس گیا‘ ہم شام کے وقت ایک ریستوران میں چلے گئے‘ہم نے وہاں جاتے ہی موبائل آن کیے اور انٹر نیٹ کے سگنل تلاش کرنے لگے‘ فیس بک‘ایکس (ٹویٹر) اور واٹس ایپ کی وجہ سے ’’وائی فائی‘‘ ہماری زندگی کا لازم جزو بن چکا ہے‘ ہم لوگ جہاں بیٹھتے ہیں‘ ہم سب سے پہلے ’’وائی فائی‘‘ تلاش کرتے ہیں اور وائی فائی ملتے ہی ہم موبائل میں گم ہو جاتے ہیں اور پھر ہمیں دائیں بائیں کا ہوش نہیں رہتا‘ ہم نے اس روز بھی یہی کیا‘ ہم پانچ سات منٹ تک موبائل فون سے گتھم گتھا رہے لیکن وائی فائی تو دور وہاں ہمارے موبائل فونز کے سگنل بھی نہیں آ رہے تھے‘
ہم لوگوں نے ویٹریس کو اشارہ کیا‘ اسے بلایا اور سگنل کی شکایت کی‘ اس نے مسکرا کر جواب دیا ’’سر ہمارے ریستوران میں جیمرز لگے ہیں‘ یہاں موبائل فونز کام نہیں کرتے‘‘ ہم نے وجہ پوچھی‘ اس نے بتایا ’’ یہ وینس کا سگنل فری ریستوران ہے‘ ہم چاہتے ہیں ‘ہمارے مہمان ایک دوسرے سے گفتگو کریں اور یہ وائی فائی کی بجائے کھانے کو انجوائے کریں‘‘ ہم اس عجیب و غریب منطق پر حیران ہوئے اور ہم نے اس سے پوچھا ’’ یہ آئیڈیا کس کا تھا؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ یہ ہمارے مالک کا آئیڈیا تھا‘‘ ہم نے کھانے کا آرڈر دیا اور ریستوران کے مالک سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی‘ ویٹریس نے ملاقات کا بندوبست کر دیا‘ ریستوران کا مالک ایک نوجوان اطالوی تھا‘ میں نے نوجوان سے اس عجیب و غریب آئیڈیا کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا ’’ جناب ٹیکنالوجی نے انسان کو دورکر دیا ہے‘ ہم گھنٹوں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے سے بات کرنے کی فرصت نہیں ہوتی‘
ہم ایک دوسرے کی بات سننے کی بجائے ایکس( ٹویٹر)‘ واٹس ایپ اور فیس بک سے گفتگو کرتے رہتے ہیں‘ ہم ریستوران میں مہنگا کھانا آرڈر کریں گے مگر کھانا انجوائے کرنے کی بجائے سوشل میڈیا سے سوشل ہوتے رہیں گے‘ ہماری اس عادت نے ہمارا ٹیسٹ بھی برباد کر دیا ہے اور ہماری محفلوں کو بھی چناںچہ میں نے اپنے ریستوران میں فون کے سگنل بند کرا دیے ہیں اور ہم گاہکوں کو ’’وائی فائی‘‘ کی سہولت بھی نہیں دیتے‘ ہم اپنے مہمانوں سے درخواست کرتے ہیں‘ آپ ہمارے ریستوران میں بیٹھ کر سینکڑوں ہزاروں میل دور بیٹھے لوگوں سے گفتگو کی بجائے سامنے بیٹھے شخص سے بات چیت کریں اور ہمارے کھانے کو انجوائے کریں‘‘۔ ہم اطالوی نوجوان کے آئیڈیے کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔
ہم ٹیکنالوجی کے دور میں زندہ ہیں‘ ٹیکنالوجی نے جہاں ہماری رفتار میں اضافہ کر دیا وہاں اس نے ہمیں اندر سے ویران بھی کر دیا ہے‘ ہم بے چینی اور بے سکونی کا شکار ہو چکے ہیں‘ زندگی ہمارے لئے فشار خون‘ دبائو‘ ٹینشن اور اینگزائٹی کے سوا کچھ نہیں رہی‘ ہم بیمار ہو چکے ہیںمگر ٹیکنالوجی ہماری ٹینشن اور فرسٹریشن کی واحد وجہ نہیں‘ ہمارے معاشی دبائو‘ سماجی افراتفری‘ رشتوں کی ٹوٹ پھوٹ‘ دوست احباب کی منافقت‘ دہشت گردی‘ لوڈ شیڈنگ‘ لاء اینڈ آرڈر کی خراب صورتحال اور انصاف کی کمی جیسے ایشوز بھی معاشرے میں فرسٹریشن اور ٹینشن پیدا کر ر ہے ہیں‘ یہ تمام عناصر مل کر ہماری خوشی کو نگل گئے ہیں اور ہم پاگل پن کی ابتدائی سٹیج پر آ گئے ہیں‘ معاشرے میں جب لوگ صرف سنی سنائی باتوں اور شک کی بنیاد پر بڑے بڑے فیصلے کرنے لگیں‘
لوگ جب ذاتی خیال کو فلسفے کی شکل دینے لگیں اور لوگ جب اپنے فرقے کو پورا مذہب سمجھنے لگیں تو آپ جان لیں معاشرہ پاگل پن کی حدود میں داخل ہو چکا ہے‘ لوگ اب لوگوں کو کاٹ کر کھانا شروع کر دیں گے اور ہم آج کل اسی عمل سے گزر رہے ہیں‘ ٹیکنالوجی اس پاگل پن میں مزید اضافہ کر رہی ہے‘ میں اکثر دیکھتا ہوں‘ تین چار لوگ گھنٹہ بھر ایک میز پر بیٹھے رہتے ہیں لیکن یہ ایک دوسرے سے گفتگو کی بجائے موبائل پر مصروف رہتے ہیں‘ گھروں میں بھی افراد خانہ آپس میں گپ شپ کی بجائے موبائل اور ٹیلی ویژن سے گفتگو کرتے رہتے ہیں‘ یہ رویہ معاشرے کو قبرستان بناتا جا رہا ہے ‘ ہم نے اگر اس پر توجہ نہ دی‘ ہم نے اگر معاشرے کی ہیئت تبدیل کرنے کی کوشش نہ کی تو معاشرتی پاگل پن اور ٹیکنالوجی کا غیر ضروری استعمال ہمیں تباہ کر دے گا لیکن اب سوال یہ ہے‘ کیا ہم اس پاگل پن سے نکل سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہے ہاں ہم بہت آسانی سے صورت حال تبدیل کر سکتے ہیں‘ اب دوسرا سوال یہ ہے‘ ہم اس صورت حال سے کیسے نکل سکتے ہیں؟یہ جواب بھی بہت سادہ ہے‘ ہمیں اس کے لیے ترقی یافتہ قوموں کا طریقہ استعمال کرنا ہو گا‘ یہ طریقہ آسان بھی ہے اور مجرب بھی اور جاپان سے لے کر امریکا تک دنیا کی تمام ترقی یافتہ قوموں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا‘ ہم اس طریقہ کار کو تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ ملک میں رائج کر سکتے ہیں۔
آپ تھوڑا ساماضی میں جا کر دیکھیے‘ آج سے سو سال پہلے یورپ بھی اسی صورت حال کا شکار تھا جس سے آج کل ہم گزر رہے ہیں‘ یہ لوگ معاشرتی گھٹن کی وجہ سے دو بڑی جنگوں تک چلے گئے اور ان جنگوں میں دس کروڑ لوگ مارے گئے مگر ان دو جنگوں کے بعد یورپ نے وہ کام شروع کیا میں جس کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں‘ یورپ کے سماجی ماہرین نے اندازہ لگایا چھٹیاں اور سیاحت دو ایسی سرگرمیاں ہیں جو انسان کے تنے ہوئے اعصاب کو نارمل کر دیتی ہیں‘ ہم اگر لوگوں کو چھٹیاں گزارنے کا موقع دیں تو اس سے معاشرے میں امن ہو جائے گا چناںچہ یورپ نے ہفتے میں اڑھائی چھٹی کر دی‘ یہ لوگ جمعہ کی سہ پہر کام سے فارغ ہوتے ہیں اور سوموار کے دن دوبارہ کام پر آتے ہیں‘ یورپ میں جولائی کے مہینے میں عوام ایک مہینہ چھٹیاں بھی کرتے ہیں‘ یہ نسخہ کارگر ثابت ہوا اور وہ یورپ جو 1945ء تک ایک دوسرے کا جانی دشمن تھا اس میں امن قائم ہو گیا‘ یورپ میں لوگ جمعہ اور ہفتہ کی شام ’’ویک اینڈ‘‘ مناتے ہیں‘ یہ کلب جاتے ہیں‘ ریستورانوں میں کھانا کھاتے ہیں اور سپورٹس کرتے ہیں‘
یہ اتوار کے دن لیٹ جاگتے ہیں‘ گھر کے کام کرتے ہیں‘ کپڑے دھوتے ہیں‘ گھروں کی صفائی کرتے ہیں‘ سوئمنگ پول میں تیرنے کے لیے جاتے ہیں اور گھروں کے لان اور گملے صاف کرتے ہیں‘ یہ ہر سال جولائی کے مہینے میں پورے خاندان کے ساتھ چھٹیاںگزارتے ہیں‘ یہ جولائی شروع ہوتے ہی دور دراز کے سفروں کے لیے نکل جاتے ہیں‘ یہ عموماً پہاڑوں میں چلے جاتے ہیں‘ گرم ساحلوں پر ڈیرے ڈال لیتے ہیں یا پھر تاریخی شہروں اور ملکوں کا رخ کرتے ہیں‘ یہ پورا مہینہ موبائل فون استعمال نہیں کرتے‘ یہ ای میل کا جواب بھی نہیں دیتے‘ چھٹیوں کا پورا مہینہ ان کا ذاتی مہینہ ہوتا ہے‘ یہ اس مہینے اپنی ذات اور اپنے خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور یکم اگست کو پورے جذبے اور توانائی کے ساتھ دوبارہ میدان میں اتر آتے ہیں‘ان چھٹیوں کے دو فائدے ہوتے ہیں‘لوگ بھی فریش ہو جاتے ہیں اور نئی معاشی سرگرمیاں بھی جنم لیتی ہیں‘ یورپ میں جولائی کے مہینے میں 15 کروڑ لوگ چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے گھروں‘ قصبوں اور شہروں سے نکلتے ہیں‘یہ عارضی نقل مکانی 200 ارب ڈالر کی نئی معاشی سرگرمیوں کو جنم دیتی ہے‘
یہ جوتوں سے لے کر ہوا بازی کی صنعت تک پورے کاروبار کو نئی زندگی بخشتی ہے‘ عوام کی ان چھٹیوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت حاصل ہے‘ یورپ کے پندرہ ممالک میں وہ شخص‘ ادارے یا کمپنی کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو کسی شخص کی چھٹیاں خراب کرنے کی مرتکب ہوتی ہے‘ ناروے میں اگر کوئی ملازم یہ شکایت کر دے‘ میرے فلاں باس کی وجہ سے میری چھٹیاں خراب ہو گئیں تو عدالت باس کو جیل بھجوا دیتی ہے‘ چھٹیوں کے دوران موبائل بند ہو جاتے ہیں اور یہ کھلے بھی ہوں تو بھی لوگ دوسروں کے موبائل پر فون نہیں کرتے‘ رابطہ اگر ناگزیر ہو تو یہ زیادہ سے زیادہ وائس میسج کر دیتے ہیں۔
ہم بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘ ہم ایک مہینے کی چھٹی لازمی قرار دے دیں‘ جولائی یا اگست کے مہینے میں تمام سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر بند کر دیے جائیں‘ ہنگامی حالات اور انتہائی ضروری دفاتر اور محکموں کے آدھے عملے کو بھی چھٹی پر بھیج دیا جائے‘ ان لوگوں کو پابند بنایا جائے یہ لوگ چھٹیوں کا مہینہ اپنے شہر میں نہیں گزاریں گے‘ یہ خواہ کسی گائوں چلے جائیں مگر یہ ایک مہینہ اس شہر میں نہیں رہیں گے جہاں یہ کام کرتے ہیں تو مجھے یقین ہے اس ایک فیصلے سے لوگوں کی جسمانی اور ذہنی حالت بدل جائے گی‘ لوگ نارمل ہونے لگیں گے‘ دوسرا‘ میرا خیال ہے ہم اگر موبائل فون کا استعمال بھی کم کر دیں‘ ہم شام کے بعد فون بند کر دیں یا پھر اس کی آواز بند کر کے اسے کسی طاق میں رکھ دیں اور اپنے خاندان کو وقت دیں تو اس سے بھی ہماری سماجی ٹینشن میں کمی واقع ہو گی‘ ہم میں سے کوئی شخص صدریا وزیراعظم نہیں ہے اور ہمارا فون دنیا کو تیسری جنگ سے بھی نہیں بچا سکتا چناںچہ ہم اگر اپنی زندگی میں امن پیدا کرنے کے لیے چند گھنٹوں کیلئے فون آف کر دیں تو کوئی قیامت نہیں آئے گی۔ہم لوگ فون اٹھا کر ایسے پھرتے ہیں جیسے ہمارے فون نے دنیا کا سارا بوجھ اٹھا رکھا ہے‘ ہمیں منہ دھونا نہیں آتا لیکن ہم پوری دنیا کے ٹھیکیدار ہیں‘ ہم زندگی میں کبھی گوجرخان تک نہیں گئے مگر امریکا کو فتح کرنا چاہتے ہیں چناںچہ ہم فشار خون کا شکار نہ ہوں توکیا ہوں!۔