”ثالثی کا گراﺅنڈ تیار کیا جا رہا ہے“ صاحب کے الفاظ میرے کانوں میں بم کی طرح پھٹے اور میں ان کی طرف حیرت سے دیکھنے لگا‘ وہ ریشمی گاﺅن کی ڈوری کے ساتھ کھیل رہے تھے‘ وہ بار بار ڈوری کستے تھے اور پھر ڈھیلی کر دیتے تھے‘ صاحب فارغ البال ہیں‘ زندگی میں بے تحاشا پیسا کمایا‘ شاندار گھر بنایا‘ قیمتی گاڑیاں خریدیں‘ بچے ملک سے باہر سیٹل کرا دیے‘ یہ گرمیوں میں سوئٹزر لینڈ چلے جاتے ہیں اور سردیوں میں پاکستان آ جاتے ہیں ۔
رات دیر تک جاگتے ہیں اور صبح لیٹ اٹھتے ہیں‘ ناشتے کے بعد ڈیڑھ گھنٹہ سگار پیتے ہیں‘ اخبار پڑھتے ہیں‘ کافی سونگھتے ہیں اور انکشافات کرتے ہیں‘ ملک اور بیرون ملک اشرافیہ ان کی دوست ہے‘ سفارت کار‘ وزراءاور پالیسی ساز ملتے رہتے ہیں اور یہ ان سے انفارمیشن کشید کرتے رہتے ہیں‘ یہ مجھے اپنا برخوردار سمجھتے ہیں‘ میں جب بھی الجھ یا پھنس جاتا ہوں تو صاحب میری فکری تنابیں تھام لیتے ہیں‘ یہ مجھے اندر کی بات بتا دیتے ہیں‘ کل بھارت نے صدارتی فرمان کے ذریعے آئین کا آرٹیکل 370 ختم کر دیا‘ وزیر داخلہ امیت شاہ نے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے لیے راجیہ سبھا میں بل بھی پیش کر دیا‘ یہ ایک خوف ناک خبر تھی‘ بل پاس ہونے کے بعد مقبوضہ کشمیر بھارت میں ضم ہو جائے گا‘ اس کی متنازع حیثیت ختم ہو جائے گی اور یہ انڈیا کا حصہ بن جائے گا‘ یہ خوف ناک ”موو“ تھی اورمیں یہ موو سمجھنے کے لیے صاحب کے پاس آ گیا‘ صاحب اے سی لگا کر کھڑکی کے پاس بیٹھے تھے‘ کمرے کا درجہ حرارت 16 ڈگری پر تھا جب کہ باہر 38 درجے کی گرمی پڑ رہی تھی‘ فضا میں خوف ناک حبس بھی تھا‘ چہرے پر تیل سا جم رہا تھا۔میں نے صاحب سے عرض کیا ”جناب یہ کیا ہو رہا ہے“ صاحب نے فوراً جواب دیا ”یہ ثالثی کے لیے میدان سجایا جا رہا ہے“ میں حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ”آپ کو یاد ہوگا 22 جولائی کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ اپنی ملاقات میں کھلم کھلا کہا تھا ‘میں کشمیر کے ایشو پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کے لیے تیار ہوں‘ مجھے نریندر مودی نے بھی اس کا عندیہ دیا تھا“۔
وہ رکے اور بولے ” نریندر مودی اور اس کی حکومت نے امریکی صدر کے بیانیہ کی فوراً تردید کر دی تھی لیکن تردید کے دس دن بعد بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں 38 ہزار فوجی بھی بڑھا دیے‘ ایل او سی پر چھوٹی بڑی توپیں بھی لگا دیں‘ فائرنگ بھی شروع کر دی‘ ہوائی اڈوں پر طیارے بھی کھڑے کر دیے‘ وادی میں موجود تمام سیاح بھی نکال لیے‘ کشمیری لیڈروں کی گرفتاری اور نوجوانوں کو گولیاں مارنا بھی شروع کر دیا اور پھر ساتھ ہی آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا‘ اچانک ایسا کیوں ہوا؟“ ۔
وہ خاموشی سے میری طرف دیکھنے لگے‘ باہر بارش شروع ہو گئی‘ صاحب نے پردے کھینچ کر کھڑکی مزید ننگی کر دی‘ بارش پودوں اور درختوں کو غسل دے رہی تھی‘ صاحب چند لمحے باہر دیکھتے رہے اور پھر بولے ”یہ اچانک اتنا اچانک نہیں ‘ پاکستان اور پاکستان کے اتحادی پہلی مرتبہ ایک صفحے پر آئے ہیں‘ یہ سمجھ گئے ہیں کشمیر کے مسئلے کے حل تک پاکستان معاشی طور پر ٹیک آف نہیں کر سکتا‘ یہ انڈرسٹینڈنگ اب بھارت میں بھی آ چکی ہے‘ نریندر مودی نے بھی سوچ لیا ہے بھارت کو کشمیر پر فل کریک ڈاﺅن کرنا چاہیے۔
سارے ریاستی وسائل ایک ہی بار اس میں جھونک دینے چاہییں اور سال ڈیڑھ سال میں اس ایشو کو اُدھر تم اور اِدھر ہم فارمولے کے تحت حل کر لینا چاہیے‘ مقبوضہ کشمیر بھارت کا اور آزاد کشمیر پاکستان کا‘ لائین آف کنٹرول کو تھوڑا بہت ایڈجسٹ کر کے انٹرنیشنل بارڈر بنا دیا جائے‘ کشمیر کے جس پوائنٹ پر بھارت آسانی محسوس کرے وہ اسے سرحد مان لے اور جہاں پاکستان کے لیے آنا اور جانا ممکن ہو وہ اسے بارڈر بنا لے اور بس مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم“ وہ خاموش ہوگئے۔
میں نے سراسیمگی کے عالم میں عرض کیا ”لیکن پھر ثالثی کہاں سے آ گئی“ وہ مسکرائے اور آہستہ سے بولے ”لائین آف کنٹرول ایکٹو ہو رہی ہے‘ بھارت گولہ باری کر رہا ہے‘ گولہ باری میں مزید اضافہ ہوگا‘ پاکستان بھی بھرپور جواب دے گایوں یہ پورا خطہ حالت جنگ میں چلا جائے گا اور پھر امریکا‘ اقوام متحدہ اور فرینڈز آف پاکستان آگے آئیں گے‘ چین ہماری طرف سے ثالث ہو گا اور امریکا بھارت کی جانب سے‘ انڈیا چین کو مان لے گا اور ہم امریکا کے کردار کو تسلیم کر لیں گے اور یہ دونوں ملک کشمیر کا فیصلہ کر دیں گے۔
یہ ایل او سی کو عالمی سرحد قرار دے دیں گے تاہم اس فیصلے کے ساتھ پاکستان اور بھارت سے چند وعدے لیے جائیں گے‘ بھارت کشمیر (مقبوضہ) سے ایمرجنسی ختم کرے گا‘ پیلٹ گن استعمال نہیں کرے گا‘ کشمیر کے کسی شہری کو قتل نہیں کرے گا‘ علاقے سے تمام پابندیاں اٹھا دے گا اور یہ کشمیریوں کو سرحد پار جانے اور آنے کی اجازت دے گا اور پاکستان سے بھی گارنٹی لی جائے گی‘ یہ مجاہدین پر پابندی لگائے گا‘ سرحد پاراسلحہ نہیں جانے دے گا اور کشمیر کے اندر کسی قسم کی تحریک کو سپورٹ نہیں کرے گا۔
چین اور امریکا دونوں اس معاہدے کے گارنٹر ہوں گے‘ بھارت یا پاکستان میں سے جو بھی خلاف ورزی کرے گا‘ یہ دونوں ملک سفارتی‘ سیاسی اور عسکری طریقے سے اس سے نبٹیں گے“ صاحب خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”لیکن جناب یہ ہمارے موقف کی سیدھی سادی توہین ہے‘ ہم کشمیر کے لیے 71 سال سے لڑ رہے ہیں‘ ہم نے اگر یہ ہی کرنا تھا تو پھر ہمیں 71 سال تک لڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ ہم 1948ءمیں ایل او سی کو بارڈر تسلیم کر لیتے اور اب تک سنگا پور یا ملائیشیا بن چکے ہوتے“ ۔
صاحب نے گردن ہلائی اور وہ دیر تک بارش کو دیکھتے رہے پھر آہستہ آہستہ بولے ”ہمیں بہرحال یہ ماننا ہوگا ہم مسئلہ کشمیر کو سیٹل کیے بغیر ترقی نہیں کر سکیں گے‘ ہم ہر آنے والے دن مزید غربت‘ مزید بیماری اور مزید بد امنی کا شکار ہوں گے‘ ہم اگر ان سے نکلنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں بنگلہ دیش کی طرح اس حقیقت کو بھی حقیقت ماننا ہوگا‘ بھارت اور پاکستان میں پہلی مرتبہ ایسی قیادت آئی جو یہ مسئلہ حل کر سکتی ہے‘ دنیا اس موقعے کو ضائع نہیں کرنا چاہتی“ وہ رک گئے‘ میں انہیں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔
وہ بولے ” یہ کام صرف وہ لوگ ہی کر سکتے تھے جن کا کوئی سٹیک نہ ہو اور عمران خان اور نریندر مودی دونوں کا کوئی سٹیک نہیں‘ مودی غیر شادی شدہ اور بے اولاد ہیں‘ یہ دوسری اور آخری بار وزیراعظم بنے ہیں‘ یہ پانچ سال گزار کر ریٹائر ہو جائیں گے‘ عمران خان بھی سیاسی خاندان نہیں رکھتے‘ بچے ملک سے باہر ہیں‘ پارٹی بھی چھوٹے بڑے پیوند جوڑ کر بنائی گئی‘ یہ بھی لمبی ریس کے کھلاڑی نہیں ہیں‘یہ بھی چلے جائیں گے اور ان کے جاتے ہی ان کی پارٹی بھی بکھر جائے گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی اور ن لیگ میں سیاسی وراثت چل رہی ہے‘ یہ لوگ ابھی مزید سیاست کرنا چاہتے ہیں چناں چہ یہ کوئی بڑا فیصلہ کر سکے اور نہ مستقبل میں کریں گے جب کہ مودی اور خان دونوں کو اپنی مقبولیت یا ووٹ بینک کی کوئی پروا نہیں‘ یہ کسی بھی جگہ چھلانگ لگا سکتے ہیں اور یہ لگا رہے ہیں‘ یہ کشمیر کا 71 سال پرانا مسئلہ بھی حل کر رہے ہیں اور یہ امن کے نوبل انعام کے لیے کوالی فائی بھی کر رہے ہیں‘ یہ دونوں انعام شیئر کریں گے“۔
وہ رکے‘ لمبی سانس لی اور بولے ”ہمارے پاس اب کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں بچا‘ ہمارے معاشی حالات پوری دنیا کے سامنے ہیں‘ ہم آئی ایم ایف اور فرینڈز آف پاکستان کی امداد کے بغیر ایک سال نہیں چل سکتے‘ ہم اگر معاشی لحاظ سے مضبوط ہو چکے ہوتے تو ہم شاید آج بہتر پوزیشن میں ہوتے لیکن ہمارے پاس مرگ مفاجات کے علاوہ کوئی آپشن نہیں‘ ہمارے دوست بھی ہماری مدد کر کر کے تھک چکے ہیں‘ چین اب واضح طور پر ہانگ کانگ کی مثال دے کر کہتا ہے ہم نے برطانیہ کے ساتھ اپنے تنازعے منجمد کر دیے تھے۔
برطانیہ ہم سے بدترین رعایتیں لیتا رہا اور ہم اسے دیتے رہے‘ دنیا ہمیں بے غیرتی کا طعنہ دیتی تھی‘ ہم چپ چاپ سہہ لیتے تھے‘ ہمارا فوکس صرف اور صرف معیشت تھا‘ آپ دیکھ لیں ہم جب معاشی لحاظ سے تگڑے ہو گئے تو برطانیہ ہماری بات ماننے پر مجبور ہو گیا‘ ہانگ کانگ ہمیں مل گیا‘ ہم اگر اس کے بجائے جنگ کی طرف جاتے تو ہمیں ہانگ کانگ بھی نہ ملتا اور ہم معاشی طور پر بھی ٹیک آف نہ کر پاتے‘ تم بھی ہمارے پیٹرن پر چلے جاﺅ‘ تم صرف معیشت پر توجہ دو‘ تم اگر معاشی طاقت بن گئے تو بھارت ایک دن تمہاری تمام شرطیں ماننے پر مجبور ہو جائے گا۔
امریکا کا پیغام مزید واضح ہے‘ یہ چاہتا ہے ہم کنٹرول لائین اور ڈیورنڈ لائین دونوں کا مسئلہ حل کر دیں‘ ہم دونوں کو سرحد مان لیں اور صرف اور صرف اپنی خود انحصاری پر توجہ دیں‘ یہ پاکستان کو نیو کلیئر بم کے ساتھ یوں اکیلے چھوڑنے کے لیے تیار نہیں چناں چہ ٹرمپ شمالی کوریا کی طرح آزاد کشمیر سے مقبوضہ کشمیر میں بھی قدم رکھنا چاہتے ہیں‘ یہ دنیا کے چھ بڑے تنازعے حل کر کے گھر جانا چاہتے ہیں“ وہ رکے اور لمبی لمبی سانسیں لینے لگے‘ میں نے عرض کیا ”اور کشمیری لیڈروں کا کیا بنے گا سر؟“۔ وہ مسکرا کر بولے ”انہیں آپشن دے دیا جائے گا‘ یہ پاکستان چلے جائیں یا پھر انڈیا میں رہ لیں‘ یہ بین الاقوامی ایمنسٹی کے حامل ہوں گے‘ ان کی جان‘ مال اور عزت تینوں محفوظ رہیں گے“۔
ملاقات کا وقت ختم ہوگیا‘ میں رخصت ہو گیا لیکن مجھے پہلی مرتبہ صاحب کی باتیں رطب ویابس اور تخیلاتی محسوس ہوئیں‘ مجھے لگا صاحب اب سٹھیا گئے ہیں اور یہ بے پرکی اڑا کر مجھے حیران بلکہ پریشان کرنا چاہتے ہیں‘ پاکستان اور بھارت دونوں نیو کلیئر پاور ہیں‘ ان کے درمیان کبھی اُدھر تم اور اِدھر ہم نہیں ہوسکے گا لیکن پھر چلتے چلتے خیال آیا‘ صاحب کتنے سچے یا جھوٹے ہیں یہ فیصلہ چند ہی دن میں ہو جائے گا‘ یہ راز اب زیادہ دنوں تک راز نہیں رہ سکے گا‘عمران خان اور نریندر مودی کے درمیان کیا پک رہا ہے یہ چند ہفتوں میں کھل کر سامنے آ جائے گا‘آپ تھوڑی دیر انتظار کریں بس الارم بجنے دیں۔