سلمان حیدر چالیس پینتالیس برس کے جوان پاکستانی ہیں‘ یہ فاطمہ جناح وویمن یونیورسٹی کے شعبہ جینڈر سٹڈیز کے پروفیسر ہیں‘ یہ ادب‘ تھیٹر‘ اداکاری‘ ڈرامہ نگاری اور صحافت سے بھی دلچسپی رکھتے ہیں‘ یہ نظمیں بھی لکھتے ہیں‘ ان کی ایک متنازعہ نظم ”میں بھی کافر تو بھی کافر“ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہوئی‘ یہ 6 جنوری کی رات بنی گالہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ تھے‘ یہ گھر جانے کےلئے نکلے اور غائب ہو گئے‘
اہلیہ نے دس بجے فون کیا ‘ سلمان حیدر نے فون نہ اٹھایا‘ اہلیہ کو بعد ازاں سلمان حیدر کے نمبر سے ایس ایم ایس موصول ہوا”میری گاڑی کرال چوک میں کھڑی ہے‘ آپ گاڑی وہاں سے منگوا لیں“ گاڑی اگلے دن کورنگ ٹاﺅن سے ملی‘ خاندان نے تھانہ لوئی بھیر میں اغواءکا پرچہ درج کرا دیا۔سلمان حیدر ان پانچ مسنگ پرسنز میں شامل ہیں جنہیں 4 سے 7جنوری کے درمیان اغواءکیا گیا‘ عاصم سعید اور وقاض گورایا کو 4 جنوری کو لاہور سے اٹھایاگیا‘ عاصم سعید سنگا پور سے لاہور پہنچاتھا جبکہ وقاص گورایا ہالینڈ میں رہتا تھا‘ یہ دونوں چار جنوری کو لاہور سے غائب ہو گئے‘ احمد رضا نصیر اور ثمر عباس 7 جنوری کو اٹھا لئے گئے‘ رضا نصیر ننکانہ صاحب میں اپنی دکان پر بیٹھا تھا‘ یہ وہاں سے اغواءکر لیا گیا‘ ثمر عباس کراچی کا رہائشی تھا‘ یہ کاروبار کے سلسلے میں اسلام آباد آیا اور غائب ہو گیا‘ یہ لوگ اگر عام حالات میں غائب ہو تے تو شاید یہ بڑی خبر نہ بنتے لیکن یہ پانچوں حضرات ایک ہی کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ بلاگرز ہیں اور یہ سوشل میڈیا پر ایک ہی قسم کا مواد پھیلاتے تھے‘ سلمان حیدر مبینہ طور پر فیس بک کے دو متنازعہ پیجز کے ایڈمن تھے ‘ایک پیج پر طویل عرصے سے مذہب کا مذاق اڑایا جا رہا تھا ‘ مقدس ہستیوں کے بارے میں توہین آمیز فقرے بھی لکھے جاتے تھے جبکہ دوسرے پیج پر پاک فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا تھا‘ عاصم سعید اور وقاص گورایا بھی فیس بک کا ایک پیج چلا رہے تھے‘ یہ اس پیج کے ذریعے کراچی آپریشن پر تنقید بھی کرتے تھے اور یہ سینئر عہدیداروں پر کرپشن کے الزامات بھی لگاتے تھے‘ احمد رضا نصیر بھی سیکولر خیالات کا مالک ہے‘ یہ ایف اے پاس ہے‘ یہ خود بلاگ نہیں لکھتا تھالیکن ایک بے راہ رو برطانوی لڑکی اس کی سوشل میڈیا فرینڈ تھی‘ یہ لڑکی قابل اعتراض بلاگ لکھتی تھی اور یہ ان بلاگز کو اپنے فیس بک پیج پر شیئر کر دیتا تھا جبکہ ثمر عباس ہیومن رائیٹ ایکٹوسٹ تھا‘یہ سول پروگریسیو الائنس پاکستان (سی پی اے پی) کا صدرتھا‘ یہ متعدد فورمز پر اقلیتوں کے بارے میں آواز اٹھاتا تھا ‘یہ اسٹیبلشمنٹ کا ناقد بھی سمجھا جاتا تھا اور یہ سوشل میڈیا پرمذہبی تنظیموں کے خلاف بھی سرگرم تھا۔
میں ایک لبرل پاکستانی ہوں‘میں فلمیں دیکھتا ہوں‘ میوزک سنتا ہوں‘ کتابیں پڑھتا ہوں اور دنیا جہاں کا سفر کرتا ہوں‘ میں نے سینکڑوں مندروں‘ کلیساﺅں‘ سیناگوگا‘ گوردواروں‘ بودھ ٹمپلز اور پارسیوں کے آتش کدوں کا وزٹ کیا‘میں تین مرتبہ ویٹی کن سٹی بھی گیا اور مجھے الحمد للہ حج اور چھ عمروں کی سعادت بھی نصیب ہوئی ‘ میں صحابہ کرامؓ ‘ امام حضرات اور اولیاءکرام کے مزارات کی زیارتیں بھی کرتا رہتا ہوںاور میں غیر مسلموں کے مذہبی سکالرز سے بھی ملتا ہوں‘ میں ان کا احترام بھی کرتا ہوں لیکن میں اس تمام تر لبرل ازم کے باوجود ہمیشہ تین ایشوز پر جذباتی ہو جاتا ہوں‘
میں اسلام‘ نبی اکرم اور صحابہ اکرام ؓ کی توہین برداشت نہیں کر سکتا‘میرا خون کھول اٹھتا ہے‘ میں پاکستان کے خلاف بھی ایک لفظ‘ ایک فقرہ نہیں سن سکتا‘ میں اب تک پاکستان کی وجہ سے سینکڑوں لوگوں کو ناراض کر چکا ہوں اور مجھے اس پر ذرا برابر افسوس نہیں اور میں پاک فوج کی توہین بھی برداشت نہیں کرپاتا‘ فوج نے ملک کےلئے عملاً ہزاروں جانوں کی قربانی دی‘میں فوج کی قربانیوں پر انگلی اٹھانے والے لوگوں کو احسان فراموش سمجھتا ہوں‘یہ تینوں میری کمزوری ہیں اور میں اس کمزوری پر ہزاروں جراتیں قربان کرنے کےلئے تیار ہوں مگر اس محبت اور ان جذبات کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ قائم ہے
ہمیں مذہب‘ نظریئے اور کلچر کے فرق کے باوجود دوسرے انسانوں کو انسان اور دوسرے پاکستانیوں کو پاکستانی سمجھنا ہو گا‘ میں اگر مسلمان ہوں تو اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں اللہ تعالیٰ کی اس زمین پر ہندوﺅں‘ عیسائیوں اور یہودیوں کو ہونا ہی نہیں چاہیے‘ میں اگر لبرل ہوں تو پھراس کا ہرگزہرگز یہ مطلب نہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے تمام مدارس بند کر دیئے جائیں‘ داڑھیوں اور برقعوں پر پابندی لگا دی جائے اور ”میں بھی کافر تو بھی کافر“ جیسی نظموں کے ذریعے دوسروں کے عقائد کا مذاق اڑایا جائے‘
میں اگر جمہوریت پسند ہوں تو اس کا ہرگزہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں ملکی سرحدوں پر جان کا نذرانہ پیش کرنے والے جوانوں کو جنرل پرویز مشرف یا جنرل یحییٰ خان قرار دے دوں‘ میں اگر مذہبی ہوں تو اس کا ہرگزہرگز یہ مطلب نہیں کہ دنیا کے تمام کلین شیو کافر قرار دے دیئے جائیں اور میں اگر کلین شیو ہوں تواس کا ہرگزہرگز یہ مطلب نہیں کہ مجھے داڑھی اور برقعے کو گالی دینے کا اختیار مل جائے‘ یہ دنیا اختلاف رائے کی خوبصورت ٹوکری ہے‘
اس ٹوکری میں پوپ فرانسس بھی موجود ہے اور سنی لیون بھی اور اس میں مولانا طارق جمیل بھی ہیں اورعاصمہ جہانگیر بھی اور یہ ٹوکری اس وقت تک خوبصورت اور مضبوط رہے گی جب تک پوپ فرانسس سنی لیون اور عاصمہ جہانگیر مولانا طارق جمیل کو برداشت کرتی رہے گی لیکن جس دن یہ ایک دوسرے کو کاٹنا شروع کر دیں گے دنیا کی اس ٹوکری کی خوبصورتی اور وجود دونوں ختم ہو جائیں گے چنانچہ ہم نے اگر اس دنیا کو بچانا چاہتے ہیں‘
ہم اگرملک میں امن قائم رکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا‘ ہمیں سلمان حیدر اور سلمان حیدر کوہمارے وجود کو تسلیم کرنا ہو گا ‘ہمارے اداروں کو بھی نواز شریف‘ آصف علی زرداری‘ محمود اچکزئی اور ثمر عباس‘ رضا نصیر‘ عاصم سعید ‘ وقاص گورایا کو ایک آنکھ سے دیکھنا ہو گا‘ ہم لکیر کے ایک سائیڈ پر کھڑے لوگوں کو سیلوٹ اور دوسری جانب موجود لوگوں کو گالی دے کر یہ ملک نہیں چلا سکیں گے‘ ہمیں یہ حقیقت اب مان لینی چاہیے۔
آپ آصف علی زرداری کی 16 جون 2015ءکی تقریر نکال کر دیکھ لیجئے‘ آصف علی زرداری نے اس تقریر میں کیا کیا نہیں کہا؟ آپ سانحہ کوئٹہ کے بعد محمود اچکزئی کی 9 اگست 2016ءکی تقریر بھی دیکھ لیجئے‘ محمود اچکزئی نے بھی قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر کیا کیا نہیں کہا اور آپ میاں نواز شریف کی 16مئی 2016ءکی تقریر بھی دیکھ لیجئے‘ وزیراعظم نے فلور آف دی ہاﺅس اپنے اور اپنے خاندان کی ”منی ٹریل“ پوری قوم کے سامنے رکھی لیکن جب اس تقریر کو سپریم کورٹ میں بطور شہادت پیش کرنے کا وقت آیا
تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان آرٹیکل 66 کی ڈھال لے کر کھڑے ہو گئے‘ یہ سپریم کورٹ کو بار بار بتاتے رہے جج آئینی طور پر پارلیمنٹیرینز کی ”فلور آف دی ہاﺅس“ گفتگو کو شہادت نہیں بنا سکتے‘آرٹیکل 66 کی دلیل ہو‘ محمود اچکزئی کی تقریر ہویا پھر آصف علی زرداری کا خطاب ہو قوم یہ دیکھ سن کر کنفیوژہو چکی ہے ‘ آج آصف علی زرداری‘ محمود اچکزئی اور میاں نواز شریف ایک سائیڈ پر کھڑے ہیں اور لکیر کی دوسری طرف سلمان حیدر‘ عاصم سعید‘ وقاص گورایا‘ احمد رضا نصیر اور ثمر عباس موجود ہیں‘
ہمارے ملک میں آصف علی زرداری کیمروں کے سامنے کچھ بھی کہہ دیں کوئی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘ یہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی رہیں گے اور انہیں سابق صدر کی سیکورٹی اور پروٹوکول بھی ملتا رہے گا‘ محمود اچکزئی اسمبلی میں ملک کے مقتدر اداروں کو للکارتے رہیں‘ کوئی ادارہ ان کے خلاف عدالت جائے گا اور نہ ہی ان سے جواب مانگا جائے گا اور میاں نواز شریف قومی اسمبلی میں پوری قوم کے سامنے اپنی منی ٹریل رکھ دیں اور وزیراعظم کا وکیل بعد ازاں آرٹیکل 66 کا واویلاشروع کر دے کوئی شخص اعتراض نہیں کرے گا
لیکن ملک کے پانچ بلاگرز کو قانونی کارروائی کے بغیر راستوں سے اٹھا لیا جائے گا اور ان کے خاندانوں کو اطلاع تک نہیں دی جائے گی‘ یہ کیا ثابت کرتا ہے؟ یہ ثابت کرتا ہے آپ جرم کرنا چاہتے ہیں‘ آپ توہین کرنا چاہتے ہیں اور آپ اگر کسی کو اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دینا چاہتے ہیں تو پہلے آپ کو قومی اسمبلی میں پہنچنا ہو گا‘ آپ الیکشن جیتیں اور اس کے بعد آپ کے نام سرے محل نکل آئے‘ آپ کے سوئس اکاﺅنٹس سامنے آ جائیں‘ آپ فلیٹس کے مالک ثابت ہو جائیں یا پھر آپ اینٹ سے اینٹ بجا دیں آپ کا کوئی بال تک بیکا نہیں کر سکے گا‘
آپ کراچی جیسے شہر کو قبرستان بنانے کے بعد بھی ایک رات جیل میں نہیں گزاریں گے‘ آپ پارلیمنٹ اور پی ٹی وی پر قبضے‘آپ سپریم کورٹ کی عمارت پر گندی شلواریں لٹکانے اور آپ ایس ایس پی کو ڈنڈوں سے کچل دینے کے باوجود قانون سے بالاتر ہوں گے لیکن آپ اگر عام شہری ہیں تو پھر آپ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ سے اٹھائے جاسکتے ہیں‘ آپ پھر انسان نہیں ہیں‘ آپ یقین کیجئے ہم جب تک عام اور خاص لوگوں کے درمیان سے آرٹیکل 66 جیسے تضاد ختم نہیں کریں گے‘ یہ ملک اس وقت تک نہیں چل سکے گا‘ ہم خواہ کچھ بھی کر لیں ۔