اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کیلئے ہدایت کیلئے کئی انبیاو رسل مبعوث فرمائے جنہوں نے انسانوں کو یوم آخرت سے متعلق نوید سناتے ہوئے دنیا میں اچھے اعمال کی ہدایت کی۔ برے اعمال کے نتیجے میں آخرت میں برے انجام سے متعلق اور خوف خدا کیلئے ان اللہ کے نیک بندوں نے لوگوں کو ان سے پہلے گزر جانے والے لوگوں کے انجام اور موت اور بعد از موت معاملات سے متعلق کئی
معجزات اور ثبوت دئیے تاکہ لوگ اسی دنیا کے نہ ہو جائیں بلکہ اس دنیا میں اچھے اعمال کرکے آخرت میں اچھے نتیجے سے فیض یاب ہوں۔ حضور اکرمﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ’’دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘۔ یعنی جو کچھ بندہ دنیا میں کرے گا اس کا نتیجہ اس کو آخرت میں بھگتنا ہو گا۔ اچھے اعمال والے جنت اور برے اعمال والے جہنم کے حقدار ہونگے۔ حضوراکرمﷺ کی ایک حدیث میں آپ نے امت کو زیارت قبور کی تلقین کی جس کا مقصد یہ تھا کہ امت کے افراد قبروں کی زیارت کے ذریعے یوم آخرت اور خوف خدا کو یاد رکھیں۔ عربی زبان میں دنیا کا مفہوم ’’بدصورت عورت‘‘کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ اور اللہ کے برگزیدہ بندوں نےدنیا کی رغبت اور یہاں دل لگانے ، مال بنانے سے ہمیشہ گریز کیا اور دنیا کو صرف اپنے سفر آخرت کا ذریعہ سمجھ کر اللہ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اعمال کئے۔ نبی آخر الزمان کے بعد آپ کے اہل بیت ؓاور صحابہ کرام ؓنے بھی امت کی رہنمائی کی اور انہیں صراط مستقیم پر قائم رہنے اوریوم آخرت کو یاد دلانے کا فریضہ سر انجام دیا۔ اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت علیؓ کا بھی ہے جب آپ صحابہ کرامؓ کے ساتھ ایک قبرستان میں گئے۔ حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں ہیں کہ ہم لوگ ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت علیؓ کے ہمراہ تھے اور مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں گئے جہاں حضرت علیؓ نے
قبروں کے سامنے کھڑے ہوکر باآواز بلند فرمایا ’’ اے قبروالو! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ! کیا تم لوگ اپنی خبریں ہمیں سناؤ گے یا ہم تم لوگوں کو تمہاری خبریں سنائیں؟‘‘اس کے جواب میں قبروں کے اندر سے آواز آئی ’’وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، اے امیر المؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ ہی ہمیں یہ سنائیں کہ ہماری موت کے بعد ہمارے گھروں میں کیا کیا معاملات ہوئے ؟‘‘
امیرالمؤمنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’’ اے قبر والو! تمہارے بعد تمہارے گھروں کی خبر یہ ہے کہ تمہاری بیویوں نے دوسرے لوگوں سے نکاح کرلیا اور تمہارے مال ودولت کو تمہارے وارثوں نے آپس میں تقسیم کرلیا اور تمہارے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم ہوکر دربدر پھر رہے ہیں اورتمہارے مضبوط اور اونچے اونچے محلوں میں تمہارے دشمن آرام اورچین کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں‘‘
اس کے جواب میں قبروں میں سے ایک مردہ کی یہ دردناک آواز آئی ’’ اے امیرالمؤمنین! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری خبریہ ہے کہ ہمارے کفن پرانے ہوکر پھٹ چکے ہیں اورجو کچھ ہم نے دنیا میں خرچ کیا تھا اس کو ہم نے یہاں پالیا ہے اورجو کچھ ہم دنیا میں چھوڑآئے تھے اس میں ہمیں گھاٹا ہی گھاٹااٹھانا پڑا ہے‘‘۔ اس واقعہ سے سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ انسان کو یوم آخرت کو یاد رکھتے ہوئے
اس دنیا میں نیک اعمال کرنے چاہئیں کیونکہ انسان اپنے ساتھ صرف اپنے اعمال ہی لے کر جاتا ہے اور اسی کا صلہ پاتا ہے۔ دنیا کے رشتے اور ناطے ، مال و دولت یوم حساب والے دن کام آنے والے نہیں۔