اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) معروف مذہبی سکالر مولانا طارق جمیل نے ایک محفل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں ایک بار انگلینڈ سے ہو کر آیا۔ ہمارے وہاں پر موجود پاکستانی بچے زیادہ تر جیل میں پھنسے ہوئے ہیں ، وہ زیادہ تر منشیات کا کاروبار کرتے تھے۔ میں نے انگلینڈ میں مقامی لوگوں سے کہا کہ مجھے یہاں کسی جیل میں لیجایا جائے تو مجھے وہاں کی پرسٹن جیل میں لیجایا گیا۔ وہاں پر پاکستان اور انڈیا کے کئی نوجوان تھے۔ میں ان کے سامنے بیٹھ گیا اور ان سے مختلف باتیں کیں، ان سے توبہ وغیرہ کروائی تو وہ بہت خوش ہوئے۔ پھر مجھے جیل کا دورہ کروایا گیا تو میں نے وہاں عجیب منظر دیکھا کہ اتنی طاقتور حکومت کا سپرنٹنڈنٹ جیل اکیلا چلا آ رہا ہے جب کہ ہمارے ہاں جیل میں اگر سپرنٹنڈنٹ ہلے تو ہر طرف ہلچل مچ جاتی ہے۔ وہاں جیل میں 850 لوگوں کی گنجائش تھی لیکن قیدی 650 تھے، گنجائش سے کم قیدی وہاں رکھے جاتے تھے جس میں ہر جیل کے کمرے میں ٹوائلٹ، بیسن، گرم پانی اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت انہیں میسر ہوتی تھی۔ وہاں ہر قیدی کیلئے کوئی نہ کوئی کام سیکھنا بہت ضروری ہوتا تھا۔ وہاں جیل میں زندگی کی ہر شے مہیا کی جاتی تھی اور جس بھی مذہب کا آدمی وہاں موجود ہوتا تھا اسے اسی کے مذہب کا عالم آ کر تعلیم دیتا تھا۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ جس قوم کا ایسا اخلاق ہو ہم انہیں نعرہ تکبیر سے فتح کرنا چاہتے ہیں تو یہ دیوانے کا خواب ہے۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ میں نے جو کچھ وہاں دیکھا میں یہ کہنے پر مجبور ہو گیا کہ انہیں کبھی زوال نہیں آ سکتا۔