اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان میں تقریبا ًتمام بڑی جماعتیں ایک دوسرے پر زور شور سے ممنوعہ غیر ملکی ذرائع سے فنڈز لینے کے الزامات لگا رہی ہیں۔روزنامہ جنگ میں صابر شاہ کی شائع خبر کے مطابق ایسے معاملات پر دنیا بھر میں سالوں سے دھواں دھار بحثیں ہورہی ہیں،بھارت
میں بھی فارن فنڈنگ ممنوع ہے۔2014 میں دہلی ہائیکورٹ نے بھارتی جنتا پارٹی اور کانگریس دونوں کو باہر سے فنڈز وصول کرنے کا مرتکب قرار دیا تھا،بھارت میں پارلیمنٹ اور ریاستی اسمبلیوں کیلئے انتخابی قوانین میں الیکشن کمیشن کے پاس رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں کے لئیے بیرونی ذرائع سے رقم حاصل کرنے کی ممانعت ہے،دہلی ہائیکورٹ کا فیصلہ اس بنیاد پر تھا کہ دونوں پارٹیوں کو ایسی کمپنیوں نے چندہ دیا جن کے اکثریتی حصص غیر ملکیوں کے تھے. لیکن بھارتی جنتا پارٹی نے 2016 میں ایک فنانس بل کے ذریعے ترمیم منظور کرالی جس کے مطابق مقامی کمپنیوں میں خواہ نصف سے زیادہ حصص غیرملکیوں کے ہوں، ان کے عطیات غیر ملکی نہیں سمجھے جائیں گے بشرطیکہ انہوں نے براہ راست سرمایہ کاری کی بعض شرائط پوری کی ہوں۔اخبار دی ہندو کے مطابق 18 مارچ 2018 کو لوک سبھا نے ایک بل منظور کیا کہ سیاسی جماعتوں کو 1976 سے بیرون ملک سے وصول کئے گئے فنڈز کی چھان بین سے مستثنیٰ کردیا
جائے۔حیرت کی بات ہے کی بھارتی پارلیمنٹ میں لمبی لمبی بحثوں کی روایت کے باوجود اس بل کی بغیر کسی بحث کے منظوری دے دی گئی،بی جے پی نے غیر ملکی کمپنی کی تعریف بھی بدل دی جس کے مطابق 50 فیصد سے کم غیر ملکی حصص والی کمپنی غیر ملکی نہیں کہلائے گی
،یہ ترمیم موثر بر ماضی یعنی ستمبر 2010 سے کی گئی۔اس ترمیم سے پہلے فارن کنٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ کے تحت سیاسی جماعتوں کو ملنے والے غیرملکی فنڈز کی چھان بین کی جاسکتی تھی. فارن کنٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عطیات بھارت کی قومی
سلامتی کو ضرر نہ پہنچائیں۔ 2020 میں حالات پھر بدلے اور الجزیرہ ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق فارن کنٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ میں پھر ترمیم کی گئی لیکن اس بار مقصد مودی سرکار پر تنقید کرنے والی این جی اوز اور انسانی حقوق کے گروپوں کو فنڈز سے محروم کرنا تھا. دنیا میں
ہرجگہ سیاسی جماعتوں کو قانون کے مطابق کئی سطح پر فنڈز ملتے ہیں۔عام لوگوں سے بھی، اشرافیہ اور با اثر حلقوں، کمپنیوں اور تاجر برادری کی طرف سے بھی،چند سال پہلے لندن کے اوورسیز ڈویلپمنٹ انسٹیٹیوٹ کی ایک ریسرچ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بعض پسماندہ جمہوریتوں
میں فنڈنگ فارن ایڈ کے طور پر بھی ہوسکتی ہے۔ اس 60 سال سے قائم آزاد تھنک ٹینک نے کہا بین الاقوامی ڈونر ترقی پذیر ممالک میں جمہوریت کے فروغ اور گورننس کی بہتری کیلئے سیاسی جماعتوں کی مالی مدد کرتے ہیں، بعض اوقات وہ اپنی پسند کی جماعت کو دیتے ہیں۔بعض
اوقات یہ مدد ان کی صلاحیت بڑھانے کی صورت میں ہوتی ہے مثلا پارٹی کا دستور اور منشور بہتر بنادیا یا انتخابی مہم چلانے کی اہلیت بڑھانا، برطانیہ میں سیاسی جماعتوں کے مہم کیلئے امداد لینے کی ریگولیشن کیلئے متعدد قوانین موجود ہیں، ایک حد سے زیادہ کے عطیات ہر ایک سے
نہیں لئے جاسکتے. غیر ملکی افراد یا کمپنیوں کو پارٹیوں یا امیدواروں کو بڑے عطیات دینے کی اجازت نہیں۔البتہ امید واروں اور پارٹیوں پر غیر ملکی عملہ رکھنے پر کوئی پابندی نہیں، الیکٹورل کمیشن کو تشویش ہے کہ اب چونکہ ڈیجٹل اشتہاری کمپین ہوتی ہے، ہوسکتا ہے غیر ملکی اپنے
ملک میں بیٹھے یہ چلا رہے ہوں،کمیشن نے اس کی ممانعت کیلئے قانون بنانے کی سفارش کی ہے۔امریکہ کے سیاسی نظام میں بے شمار غیرملکی عطیات آتے ہیں جن کی نہ کوئی حد ہے نہ پوچھ گچھ. وائس آف امریکہ کی 5 نومبر 2019 کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ
بیرونی عطیات کے امریکی الیکشن پر اثرات کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں لیکن اس کا دروازہ کوئی ایک عشرہ پہلے کی سپریم کورٹ کی ایک رولنگ سے کھلا. کانگریس سے فنڈڈ ایک 78 سالہ امریکی براڈ کاسٹر نے کہا حالیہ ہیڈ لائنز سے ظاہر ہوا ہے کہ بیرونی عطیات کس طرح امریکہ
کے سیاسی خون میں داخل ہوسکتے ہیں. صدر کے وکیل روڈی جیولیانی کے کاروباری ساتھیوں کے ریاستی اور وفاقی انتخابی مہم اور پولیٹیکل ایکشن کمیٹیوں میں غیر ملکی سرمایہ ڈالنے اور اس سلسلے میں مقدموں کا بھی انکشاف ہوا ہے۔بیلارس نژاد آیگور فرومین اور یوکرائن نژاد لیو پاراناس
نے جنہوں نے سابق نائب صدر جو بائیڈن کیخلاف تحقیقات میں جوئیلانی کی مدد کی تھی، ایک روسی شخص کے ذریعے ایک ملین ڈالر امریکی امیدواروں کو دلانے کی سازش کی. محکمہ انصاف کی طرف سے یہ الزامات ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کانگریس کی انکوائری میں سامنے آئے.
ٹرمپ نے کہا کہ وہ جیولیانی کے ان ساتھیوں کو نہیں جانتے حالانکہ ان میں سے ایک کے ساتھ ان کی وائٹ ہاوس میں بنی ہوئی تصویر بھی سامنے آچکی ہے۔آسٹریلیا کے اخبار دی ایج اور کینبرا کی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے مطابق آسٹریلیا کی سیاسی جماعتوں کو سرکاری طور پر
فنڈز دئیے جاتے ہیں تاکہ نجی عطیہ دہندگان انتخابات پر اور ان کے نتیجے میں پالیسی سازی پر اثر انداز نہ ہوسکیں، ہر الیکشن کے بعد آسٹریلیا کا الیکٹورل کمیشن سیاسی جماعتوں میں ان کے حاصل کردہ ووٹوں کے تناسب سے رقوم تقسیم کرتا ہے۔مثال کے طور پر 2013 کے الیکشن کے بعد سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو 5 کروڑ 81 لاکھ ڈالر دئیے گئے،
لبرل پارٹی کو 2 کروڑ39 لاکھ اور لیبر پارٹی کو 2 کروڑ 8 لاکھ ڈالر ملے. آسٹریلوی پارٹیوں کو نجی اور پارٹیوں کے عطیات بالعموم تشہیر پر خرچ ہوتے ہیں۔اشیا اور خدمات بھی ملتی ہیں، الیکٹورل کمیشن عطیات پر نظر رکھتا ہے اور ہر سال سیاسی عطیہ دہندگان کی فہرست شائع کرتا ہے. اس طرح وہاں کسی کاخفیہ عطیات دینا بہت مشکل ہ لیکن بعض اوقات کسی اور کے نام سے دے دئیے جاتے ہیں۔