انقرہ (این این آئی)ترکی میں حکام نے امریکا میں مقیم مبلغ علامہ فتح اللہ گولن کی تحریک سے تعلق کے الزام میں 304 فوجی افسروں اور اہکاروں کو حراست میں لینے کا حکم دیا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق ان فوجیوں پرگولن تحریک کے وابستگان سے روابط رکھنے کا الزام عاید کیا گیا ہے۔
فتح اللہ گولن اور ان کی تحریک پر 2016 میں صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کی سازش میں ملوث ہونے کا الزام ہے اور اس کے حامیوں، کارکنان اور وابستگان کے خلاف تب سے کارروائیاں جاری ہیں۔ترک فوج کے اعلی افسروں کی قیادت میں اس ناکام بغاوت کے وقت ڈھائی سو سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔فتح اللہ گولن نے اس ناکام فوجی بغاوت سے لاتعلقی ظاہر کی تھی مگر ترک حکومت انھیں ہی تمام اتھل پتھل کا مورد الزام ٹھہراتی چلی آرہی ہے۔ترکی کے پراسیکیوٹر کے دفتر نے مغربی ساحلی صوبہ ازمیر میں مشتبہ فوجی اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا تھا اور پھر اس کا دائرہ کار پچاس صوبوں تک پھیلا دیا گیا ہے۔گرفتارکیے گئے مشتبہ افسروں میں ترک فوج کے پانچ کرنل اور دس کپتان بھی شامل ہیں۔وہ اس وقت حاضر ڈیوٹی تھے۔ترکی کی سرکاری خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ فوجی افسر گولن نیٹ ورک سے وابستہ افراد سے رابطے میں تھے۔ترکی میں ساڑھے
چار سال قبل ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے قریبا 80 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔ان کے خلاف صدر ایردوآن کی حکومت کا تختہ الٹنے کے الزام میں عدالتوں میں مقدمات چلائے جارہے ہیں۔ان کے علاوہ قریبا ڈیڑھ لاکھ سرکاری ملازمین ، فوجی افسروں اور اہلکاروں کو معطل یا برطرف کیا جاچکا ہے۔گذشتہ چار سال میں صرف ترک فوج سے 20 ہزار سے زیادہ افراد کو برطرف کیا گیا ہے۔