نئی دہلی(این این آئی)بھارت کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کے خلاف احتجاجی مظاہروں کی لہر یورپ تک پہنچ چکی ہے۔ بھارتی ٹی وی کے مطابق جرمن شہر میونخ میں پیدا ہونے والی صبورا منپریت نقشبند خود کو بھارت میں محفوظ سمجھتی تھیں، ان کو کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ان کی پیدائش بھارت میں نہیں ہوئی۔ لیکن بھارتی حکومت کے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون کے بعد
وہ اپنے اہل خانہ کے لیے پریشان ہیں۔ نقشبند کے بقول میری ماں جنوبی بھارت کی ایک مسلمان خاتون ہیں جن کی شادی شمالی بھارت کے ایک سکھ شخص سے ہوئی۔ ستر کی دہائی میں انہوں نے معاشی تنگی کی وجہ سے جرمنی ہجرت کی۔لیکن میری دادی ابھی بھی بھارتی ریاست پانڈی چیری میں رہتی ہیں۔بھارتی حکومت نے شہریت سے متعلق جو نیا قانون منظور کیا ہے اس میں پڑوسی ممالک، پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے ایسے تمام تارکین وطن کو شہریت دینے کی بات کی گئی ہے جو وہاں اقلیت میں ہیں لیکن مسلمان اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس کے خلاف بھارت کے مختلف شہروں میں تو احتجاجی مظاہرے جاری تھے، جرمن دارالحکومت برلن میں بھارتی شہریوں نے بھی ایک احتجاجی ریلی نکالی۔ اس احتجاجی مظاہرے میں شریک نقشبند نے بتایا کہ بھارت کے کثیرالثقافتی تشخص کو فسطائیت نقصان پہنچا رہی ہے۔علاوہ ازیں برلن میں پیدا ہونے والی ایک بھارتی طالبہ کیرتی نے کہاکہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز (این آر سی) کے اثرات مذہبی امتیاز سے بڑھ کر ہو سکتے ہیں۔ بھارت میں ہندو قوم پسند حکومتی جماعت بی جے پی کے ان حالیہ اقدامات کے خلاف جرمنی کے بڑے شہر برلن، ہیمبرگ، فرینکفرٹ اور میونخ میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پراتوارکو بھی برلن سمیت دیگر شہروں میں مظاہرے کیے گئے جبکہ یکم فروری کو جنیوا میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز کے سامنے بھی احتجاجی مظاہرے کیا جائے گا۔