مراکش( آن لائن )شمالی افریقی ملک مراکش میں گزشتہ ماہ اسقاط حمل کے الزام میں گرفتار کی گئی خاتون صحافی ھاجر الریسونی کے معاملے نے نیا رخ اختیار کرلیاھاجر الریسونی کو مراکشی پولیس نے گزشتہ ماہ 31 اگست کو گرفتار کیا تھا، تاہم انہیں عدالت میں 2 ستمبر کو پیش کیا گیا تھا۔ پولیس نے انہیں غیر ازدواجی تعلقات استوار کرنے اور حمل کو ضائع کرانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے
رباط کے ایک کلینک سے اسقاط حمل کرایا جب کہ خاتون صحافی نے الزامات کو مسترد کیا ہے۔خاتون صحافی کے خلاف عدالت میں پیش کیے گئے ثبوتوں سے بھی یہ واضح نہیں کہ انہوں نے اسقاط حمل کرایا جب کہ جس خاتون ڈاکٹر پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے ھاجر الریسونی کا اسقاط حمل کیا انہوں نے بھی پولیس کے دعووں کو مسترد کردیا تھا۔تاہم اب خبر سامنے آئی ہے کہ ھاجر الریسونی کی جانب سے اسقاط حمل کرانے کے معاملے میں نئے ثبوت سامنے آئے ہیں، جس سے معاملہ مزید متنازع بن گیا۔مراکش کی ویب سائٹ موراکو ورلڈ نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ ھاجر الریسونی کے خلاف عدالت میں نئے ثبوت پیش کیے گئے ہیں، جن میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق عدالت میں پیش کیے گئے ھاجر الریسونی کے نئے میڈیکل رپورٹ میں دعوی کیا گیا ہے کہ خاتون صحافی کا اسقاط حمل کیا گیا۔ساتھ ہی میڈیکل ریکارڈ میں بھی دعوی کیا گیا ہے کہ ھاجر الریسونی کا یہ پہلا اسقاط حمل نہیں تھا۔رپورٹ کے مطابق میڈیکل ریکارڈ میں دعوی کیا گیا ہے کہ ھاجر الریسونی نے 6 ماہ قبل بھی حمل ضایع کروایا تھا۔عدالت میں پیش کیا گیا میڈیکل ریکارڈ رباط کے مشہور ترین ابن سینا ہسپتال کی جانب سے جاری کیا گیا ریکارڈ ہے۔تاہم دوسری جانب ھاجر الریسونی کے ادارے الیوم اخبار نے رپورٹ کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے مستند ثبوتوں سے خالی قرار دیا۔خیال رہے کہ ھاجر الریسونی تاحال پولیس کی تحویل میں ہیں اور اگر ان پر اسقاط حمل کا الزام ثابت ہوگیا تو انہیں قید اور جرمانے کی سزا ہوگی۔