نئی دہلی(انٹرنیشنل ڈیسک )بھارتی سپریم کورٹ نے متنازعہ ملکی بائیو میٹرک نظام کی قانونی طور پر درستی کی توثیق کر دی تاہم عدالت نے ذاتی ڈیٹا کی حفاظت پر تحفظات ظاہر کرتے ہوئے حکومت سے بینکنگ سے ٹیلیفون سروس تک پرائیویسی لازمی بنانے کو کہا ہے۔بھارتی ٹی وی کے مطابق بھارت میں بنیادی شناخت کے لیے حکومت ایک آئی ڈی کارڈ جاری کرتی ہے جوآدھار کے نام
سے معروف ہے۔ یہ ایک بائیومیٹرک کارڈ ہے۔ بھارت کی عدالت عالیہ میں یہ کیس اس سسٹم کے ناقدین کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔اس سسٹم کے تحت ایک بلین بھارتی باشندوں کو شناختی کارڈ جاری کیے جا چکے ہیں۔ ناقدین کو خدشات ہیں کہ یہ نظام ایک کڑی نگرانی کرنے والی سرکار کو جنم دے سکتا ہے اور عوام کے نجی کوائف تک پہنچنے میں کمپنیوں کا راستہ آسان ہو سکتا ہے۔پانچ جج صاحبان پر مشتمل پینل کی اکثریت نے فیصلہ سناتے ہوئے عوامی فلاحی اسکیموں کے لیے آدھار کے استعمال کو واضح کیا اور اسے غریب اور کم تر طبقے کو خود مختار بنانے کا ایک ذریعہ قرار دیا۔ خیال رہے کہ آدھار شناختی کارڈ کے لیے آنکھوں کی پتلیوں کا سکین اور انگلیوں کے نشانات ایک ڈیٹا بیس میں ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ اس کارڈ کے ساتھ ہی گھر کا پتہ، فون نمبر، تاریخ پیدائش، ای میلز، بینک اکاؤنٹ اور پاسپورٹ وغیرہ جیسی ذاتی تفصیلات بھی درج ہوتی ہیں۔ یہ تمام تفصیلات حکومت کی متعلقہ ویب سائٹ پر دستیاب ہیں اور حکومت کا دعوی ہے کہ یہ پوری طرح سے محفوظ ہیں۔بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کا آدھار کے قانون میں ایسی شقیں شامل کی جانی چاہییں، جن سے ایسے افراد کی شکایات کا ازالہ کیا جا سکے جن کا ذاتی ڈیٹا لیک ہوا ہو۔رواں برس کے آغاز میں بھارتی سرکاری دفاتر سے بائیومیٹرک شناختی اسکیم کے تحت جمع کیے جانے والے عوام کے ذاتی ڈیٹا کی چوری اور اس کے فروخت کی اطلاعات سامنے آئی تھیں۔ آدھار کارڈ ابتدا سے ہی متنازعہ رہا ہے اور اس کے کئی پہلوؤں پر اعتراضات ہوتے رہے ہیں۔حکومت آدھار کارڈ کو تمام سرکاری سکیموں سے مربوط کرنے کا ادارہ رکھتی ہے جس کے نفاذ کے بعد کوئی بھی سرکاری کام اس کے بغیر ممکن نہیں ہوگا۔