اسلام آباد، ریاض، تہران،عمان، استنبول،برسلز،برلن (آن لائن)امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کو پاکستان سمیت بین الاقوامی سطح پر شدید مذمت کا سامناہے ۔ صدر پاکستان ممنون حسین نے تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی شدید مذمت کرتا ہوںاس معاملے پر مسلم امہ کی جانب سے شدید ردعمل کیا جائے گا ، وزارت خارجہ کی
جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر پاکستان بھی عالمی برداری کے ساتھ کھڑا ہے جس نے امریکی انتظامیہ کی طرف سے القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم اور امریکہ کا سفارت خانہ وہاں منتقل کرنے کی مخالفت کی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ دنیا بھر کے ممالک کی اس درخواست کے باوجود کہ تاریخی شہر یروشلم کی قانونی اور تاریخی حیثیت کو تبدیل نہ کیا جائے، امریکہ نے ان مطالبات کو نظرانداز کردیا۔بیان میں کہا گیا ہے کہ اس فیصلے سے مشرقِ وسطیٰ میں امن کو شدید دھچکا لگے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگیوٹرس نے صدرڈونلڈٹرمپ کے بیت المقدس کواسرائیل کادارالخلافہ تسلیم کرنے کے فیصلے کوتنقیدکانشانہ بنایاہے اورخبردارکیاہے کہ شہرکی حیثیت کامسئلہ اسرائیلوں اورفلسطینیوں کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے حل ہوناچاہئے۔سعودی عرب کی جانب سے جاری کیے گئے شاہی بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ ‘بلاجواز اور غیر ذمہ دارانہ’ ہے اور ‘یہ فلسطینی عوام کے حقوق کے منافی’ ہے۔ایران نے کہاہے کہ اس اعلان سے نئی انفتادہ یااحتجاجی تحریک شروع ہونے کاخطرہ ہے ۔ایرانی وزارت خارجہ نے اپنی ویب سائیٹ پرجاری بیان میں کہاہے کہ امریکہ کی جانب سے اشتعال انگیزاورناعاقبت اندیش فیصلہ مسلمانوں کے جذبات کوابھارے گااورنئی انفتادہ کوجنم دیگا،جبکہ انتہاء پسندانہ
ناراض اورپرتشددرویوں میں اضافے کاباعث بنے گا۔بیان میں کہاگیاکہ ٹرمپ کااقدام عالمی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اوریہ کہ القدس فلسطین کالازوملزوم حصہ ہے ۔ایران اس اقدام کی شدیدمذمت کرتاہے اورعالمی برادری ،بااثرممالک اورباالخصوص اسلامی ملکوں پرزوردیتاہے کہ اس امریکی اقدام پرعملدرآمدکوروکاجائے جوکہ صرف صیہونی ریاست کوفائدہ اورخطے کے استحکام کونقصان پہنچانے کیلئے ہے ۔
دریں اثناء اردن نے بھی امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی جانب سے القدس کواسرائیل کادارلخلافہ تسلیم کرنے کی مذمت کرتے ہوئے اسے عالمی قانون اوراقوام متحدہ کے چارٹرکی خلاف ورزی قراردیاہے ۔حکومتی ترجمان محمدمومانی نے کہاکہ امریکی صدرکا بیت المقدس کااسرائیل کادارالخلافہ تسلیم کرنے اورامریکی سفارتخانہ اس شہرمیں منتقل کرنے کافیصلہ عالمی قانون اوراقوام متحدہ کے چارٹرکی خلاف ورزی ہے ۔ادھر ترکی نے بھی امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے اس اعلان کوغیرذمہ دارانہ اورغیرضروری قراردیتے ہوئے مذمت کی ہے ۔
ترک وزیرخارجہ میولوت کیووسوگلونے ٹوئیٹرپرلکھاکہ ہم امریکی انتظامیہ کے غیرذمہ دارانہ فیصلے کی مذمت کرتے ہیں ،یہ فیصلہ عالمی قانون اوراقوام متحدہ کی متعلقہ قراردادوں کے خلاف ہے ۔ٹرمپ کے متوقع اعلان سے قبل صدررجب طیب اردوان نے اردن کے شاہ عبداللہ دوئم کے ساتھ ملاقات کے بعدخبردارکیاتھاکہ یہ اقدام دہشتگردگروپوں کے ہاتھوں میں کھیلنے کے مترادف ہوگا۔اردوان پہلے ہی اسلامی ممالک کی تعاون تنظیم (اوآئی سی )کامعاملے پربات چیت کیلئے تیرہ دسمبرکواستنبول مین اجلاس طلب کرچکے ہیں ۔
ترک وزیرخارجہ نے بیان میں مزیدکہاکہ اسرائیل اورفلسطین کے درمیان تنازعہ کوصرف ایک فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں حل کیاجاسکتاہے ،جس کادارالخلافہ مشرقی القدس ہو۔ حال ہی میں سعودی عرب میں اپنے استعفے کا اعلان کرنے کے بعد رواں ہفتے اسے واپس لینے والے لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری نے کہا کہ ‘ہمارا ملک بھرپور طریقے سے فلسطینیوں کے ساتھ اپنی حمایت کا اعلان کرتا ہے
اور ان کا علیحدہ ملک جس کا دارالحکومت القدس ہو، قائم کرنے کے مطالبے کا ساتھ دیتا ہے۔’ انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ امریکی فیصلے سے خطے میں خطرات کا اضافہ ہو گا۔ادھر یورپ کے دوسرے ممالک کی طرح جرمنی سے بھی امریکی فیصلے کی مذمت سامنے آئی ہے جب جرمنی کی چانسلر انگیلا میرکل نے اپنے ترجمان کے ذریعے پیغام جاری کیا جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ ‘صدر ٹرمپ کے فیصلے کی قطعی حمایت نہیں کرتیں۔’انھوں نے مزید کہا کہ
‘یروشلم کے رتبے کے بارے میں فیصلہ صرف دو ریاستوں پر مبنی حل کے تحت ہو سکتا ہے۔’فلسطین کے صدر محمود عباس نے امریکی صدر کے اس فیصلے پر کہا ’صدر ٹرمپ کے شرمناک اور ناقابل قبول اقدامات نے امن کی تمام کوششوں کو کمزور کر دیا ہے۔‘ یورپی یونین کی فارن پالیسی کی سربراہ فیڈریکا مگیرینی نے صدر ٹرمپ کے اقدام پر’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا ہے.فیڈریککا مگیرینی نے کہا
’یروشلم کے بارے فریقین کی خواہشات کو پورا کیا جانا نہایت ضروری ہے اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہر صورت مذاکرات کا راستہ ڈھونڈنا چاہیے۔‘برطانوی وزیرِ اعظم ٹریزا مے نے ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ٹریزا مے کے ایک ترجمان کا کہنا تھا ’ہم امریکہ کے فیصلے سے متفق نہیں ہیں کہ وہ اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرے اور یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرے۔‘
مصر نے امریکہ کی جانب سے یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے اعلان کو مسترد کر دیا۔فرانسیسی صدرایمانوئیل میکرون نے اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈٹرمپ کے القدس کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کے فیصلے کوافسوسناک قراردیاہے اورہرقیمت پرتشددسے بچنے کیلئے کوششیں بروئے کارلانے پرزوردیاہے ۔الجیریاکے سرکاری دورے کے دوران پریس کانفرنس سے خطاب میں میکرون نے پختہ عزم کااعادہ کیاکہ فرانس اوریورپ دوریاستی حل کیلئے اپنے مؤقف پرقائم ہیں ،
جس میں اسرائیل اورفلسطین امن اورسلامتی کے ساتھ عالمی سطح پرتسلیم شدہ سرحدوں کے اندرایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور بیت المقدس دونوں ریاستوں کادارالخلافہ ہو،انہوں نے تمام فریقین سے پرسکون رہنے اورذمہ داری کامظاہرہ کرنے کامطالبہ کیاہے ۔ان کاکہناتھاکہ ہمیں ہرقیمت پرتشددسے گریزاورمذاکرات کوترجیح دینی چاہئے ،فرانس اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کراس سمت میں تمام ضروری اقدامات کرنے کوتیارہے۔فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل نے کہاکہ
امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کا القدس کواسرائیل کادارالخلافہ تسلیم کرنے کے فیصلہ نے مشرق وسطی تنازعہ کے دوریاستی حل کیلئے امیدوں کوتباہ کردیاہے ۔صائب اراکات جوطویل عرصے کیلئے فلسطین کے اعلیٰ مذاکرات رہ چکے ہیں نے ٹرمپ کے خطاب کے بعدصحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے دوریاستی حل کوتباہ کردیاہے ،ان کاکہناتھاکہ ٹرمپ نے امن عمل میں ان کے ملک کے کسی بھی قسم کے کردارکوختم کردیاہے ۔
ان کامزیدکہناتھاکہ بطورچیف مذاکرات کارمیں کیسے ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ سکتاہوں اگروہ مجھے یروشلم کے اسرائیلی دارالحکومت کے طورپرمستقبل بارے مجھ پرکوئی فیصلہ مسلط کریں گے تو۔اراکات نے خبردارکیاکہ یہ حقیقت میں نہ صرف پورے خطے بلکہ عالمی دنیاکو کوبدامنی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ جرمن چانسلرانجیلامرکل امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کی جانب سے القدس کواسرائیل کادارالحکومت تسلیم کرنے کی حمایت نہیں کرتی ہیں ،یہ بات ان کے ترجمان نے گزشتہ روزکہی ہے ۔
ترجمان سٹیفن سیبرٹ نے ٹوئیٹرپرلکھاکہ جرمن حکومت اس مؤقف کی حمایت نہیں کرتی ،کیونکہ بیت المقدس کی حیثیت پر صرف دوریاستی حل کے فریم ورک کے اندرہی مذاکرات ہوسکتے ہیں ۔جرمن وزیرخارجہ سگمارگیبرئیل کااپنی طرف سے کہناتھاکہ انہیں خدشہ ہے کہ ٹرمپ کافیصلہ اسرائیل اورفلسطینیوں کے درمیان تنازعہ میں نئی کشیدگی کوجنم دیگا۔انہوں نے سرکاری نشریاتی ادارے اے آرڈی کوبتایاکہ فیصلہ متوقع طورپرجلتی پرتیل ڈالنے کے مترادف ہوسکتاہے ،ہم امیدکرتے ہیں کہ ہمارے خدشات کے برعکس حالات پرسکون ہوسکتے ہیں لیکن تاہم یہ اقدام
پہلے سے ایک بڑے مسئلے کاسامناکرنے سے متعلق ہے ۔ دریں اثناء اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے 15 میں سے آٹھ ممالک نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی فیصلے کے حوالے سے رواں ہفتے کے اختتام تک ہنگامی اجلاس بلایا جائے۔فرانس، بولیویا، مصر، اٹلی، سینیگال، سویڈن، برطانیہ اور یوراگوائے نے اس ہنگامی اجلاس کا مطالبہ کیا ہے جو جمعے کو منعقد ہوگا اور توقع ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اس میں خطاب کریں گے۔