بیجنگ(آئی این پی) چین نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فروغ سے کشمیر کے مسئلے پر چین کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا،سی پیک سے کشمیر پر چین کا موقف متاثر نہیں ہوگا، چین اور پاکستان کے درمیان دفاع، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں معمول کا تعاون برقرار ہے،بھارت ا ور پاکستان کے درمیان بچے ہوئے تاریخی مسئلے کو دونوں فریقوں کی جانب سے مناسب طور پر مذاکرات اور
کنسلٹینسی کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔چائنہ ریڈیو انٹرنیشنل کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چن ینگ نے پاکستان اوربھارت کے درمیان کشمیر کے دیرینہ تنازع کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتے ہوئے کہاکشمیر پر چین کا موقف اصولی اور واضح ہے۔بھارت ا ور پاکستان کے درمیان تاریخ کے اس بچے ہوئے مسئلے کو دونوں فریقوں کی جانب سے مناسب طور پر مذاکرات اور کنسلٹینسی کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے۔انھوں نے کہا کہ ‘چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے فروغ سے کشمیر کے مسئلے پر چین کے موقف پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔’ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ چین اور پاکستان کے درمیان دفاع، صنعت اور تجارت کے شعبوں میں معمول کا تعاون برقرار ہے۔پاکستان کے چیف آرمی آف سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے چین کے دورے اور نائب وزیر اعظم ڑانگ گاؤلی، سینٹرل ملیٹری کمیشن کے نائب چیئرمین فین چانگ لونگ اور جوائنٹ سٹاف کے سربراہ فانگ فینگوئی کے ساتھ ان کی ملاقاتیں ہوئی ہیں جن کی تفصیلات جاری کر دی گئی ہیں۔اس سے قبل چین نے اقتصادی راہداری منصوبے میں پاکستان کی جانب سیبھارت کو شمولیت کی پیشکش پربھارت کے رد عمل سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔تاہم اس نے کہا تھا کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ تیسرے فریق کو پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں متعارف کرنے کے امکانات پر فیصلہ پاکستان سے مشاورت اور ہم آہنگی کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔یاد رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری
46 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جس پر کام تیزی سے جاری ہے۔اور چینی حالیہ دنوں سی پیک سے متعلق ‘منفی پروپیگنڈے’ کو زائل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔پاکستان میں تعینات چینی سفارت کار عموماً ‘خاموش’ سفارتکاری’ پر عمل پیرا رہے ہیں لیکن چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر عمل درآمد میں تیزی آنے کے ساتھ ساتھ یہی چینی سفارت کار سوشل میڈیا پر اس کے دفاع کے لیے کافی متحرک ہوئے ہیں
۔بھارتی میڈیا تھا کہ سی پیک میں پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کی شمولیت پر انڈیا کواعتراض ہے اور یہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات میں شامل ہے۔ جبکہ چین جوہری سپلائر گروپ، این ایس جی میں انڈیا کی شمولیت اور اقوامِ متحدہ کی جانب سے جیشِ محمد کے سربراہ مسعود اظہر پر پابندی کی راہ میں حائل ہے۔