نیو یا رک ( آن لائن )اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو نے ایک متنازع قرارداد کو منظور کیا ہے جس میں یروشلم میں موجود تاریخی بیت المقدس کے سلسلے میں یہودیوں کا کوئی ذکر نہیں۔یونیسکو کے ایگزیکٹیو بورڈ نے عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ اس قرارداد کو منظور کر لیا ہے۔ قرارداد میں بار بار اسے صرف اس کے اسلامی ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ یہ یہودیوں کا بھی مقدس ترین مقام ہے۔یہودی اسے ‘ٹمپل ماؤنٹ’ کے نام سے پکارتے ہیں تو مسلمان اسے ‘حرم شریف یا بیت المقدس’ کے نام سے پکارتے ہیں۔اس قرارداد کے سبب گذشتہ ہفتے اسرائیل نے یونیسکو سے اپنے سارے رابطے منجمد کر دیے۔قرارداد کے متن کا مقصد فلسطین کے ثقافتی ورثے اور مشرقی یروشلم کے مخصوص کردار کو بچانا تھا۔اس میں یروشلم اور مقبوضہ غرب اردن کے مقدس مقامات پر اسرائیل کی سرگرمیوں پر تنقید بھی کی گئی ہے۔یروشلم کے قدیم شہر اور اس کی دیواروں کو وحدانیت کے قائل تینوں مذاہب (اسلام، یہودی اور نصرانی) میں مقدس تسلیم کیا گیا ہے لیکن مقدس پہاڑی کو صرف ‘الاقصی مسجد یا حرم الشریف’ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔قرارداد کے متن میں ‘البراق پلازہ’ کو دو واوین میں لکھا گیا ہے جبکہ اسی کے یہودی نام ‘ویسٹر پلازہ’ کو ایک واوین میں لکھا گیا ہے یعنی اسے کم اہمیت دی گئی ہے۔یونیسکو کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے صدر مائیکل ووربس نے جمعے کو کہا کہ مصالحت کے لیے اگر مزید وقت مل جاتا تو بہتر ہوتا۔انھوں نے اسرائیل ٹی وی نیٹ ورک چینل 10 کو بتایا: ‘کل جو ہوا وہ بہت غیر معمولی تھا اور مجھے اس پر افسوس ہے۔’منگل کو یونیسکو میں اسرائیل کے سفیر کارمیل شمع ہوکوہین نے فلسطین پر ‘کھیل کھیلنے’ کا الزام لگایا۔انھوں نے بتایا کہ ‘ممالک اور لوگوں کے درمیان مسائل کو سلجھانے کے لیے یہ غلط جگہ ہے۔’لیکن یونیسکو میں فلسطین کے نائب سفیر منیر انستاس نے قرارداد کے منظور کیے جانے کا خیرمقدم کیا اور امید ظاہر کی کہ ‘اس سے اسرائیلی حکام پر دباؤ پڑے گا’ کہ وہ اپنی تمام خلاف ورزیاں بطور خاص قدیم شہر اور اس کے اطراف میں کھدائی روک دیں۔قرارداد میں بار بار قوت کے استعمال، مسلمانوں پر پابندی عائد کرنے اور آثار قدیم کے تعلق سے اسرائیلی سرگرمیوں کی مذمت کی گئی ہے لیکن اسرائیل ان تنقید کو سیاست سے متاثر قرار دیتا ہے۔<