ریاض(آئی این پی)سعودی عرب نے امریکہ میں نائن الیون حملوں کے متاثرین کا سعودی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے متعلق بل پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی کانگریس کی جانب سے خود مختار استثنی کو ختم کرنے سے امریکہ سمیت تمام ممالک پر منفی اثر پڑے گا۔غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے امریکہ میں نائن الیون حملوں کے متاثرین کا سعودی حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کرنے سے متعلق بل پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکی کانگریس کی جانب سے خود مختار استثنی کو ختم کرنے سے امریکہ سمیت تمام ممالک پر منفی اثر پڑے گا۔اس بل کی مدد سے 11 ستمبر ہونے والے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے اہلِ خانہ کو سعودی عرب کی حکومت پر مقدمہ دائر کرنے کا اختیار ملا تھا۔امریکی کانگریس نے بدھ کو متفقہ طور پر صدر براک اوباما کی جانب سے اس بل کو ویٹو کرنے کے فیصلے کو مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔اس بارے میں براک اوباما کا کہنا تھا اس بل پر ان کے ویٹو کو ختم کر کے پارلیمان کے فیصلے نے ایک ‘خطرناک مثال’ قائم کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس بل کو منظور کرنے سے صدر کی خود مختاری کے حق کا تصور ختم ہو جائے گا۔صدر اوباما نے بل کو ویٹو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس قانون سے سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہوں گے اور انھوں نے خبردار کیا تھا کہ افغانستان اور عراق جیسے ممالک میں امریکی افراد کو بھی ایسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔خیال رہے کہ نائن الیون کے حملے میں ملوث 19 ہائی جیکروں میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا۔ اس حملے میں تین ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جب کہ امریکہ کے قریبی اتحادی سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ ان حملوں میں ملوث نہیں تھا۔دریں اثنا امریکی کانگریس کے رپبلکن رہنماں کا کہنا ہے کہ وہ اس قانون پر دوبارہ غور کرنا چاہتے ہیں۔امریکی سینیٹ میں رپبلکن جماعت کے رہنما مچ میکونل نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ قانون ساز اس حوالے سے آنے والی ممکنہ مشکلات کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر کوئی ممکنہ فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں جانتا تھا لیکن حقیقت میں کسی نے اس بارے میں نہیں سوچا کہ اس سے ہمارے بین الاقوامی تعلقات پر منفی اثر پڑے گا۔
’’امریکہ باز آ جائے‘‘ سعودی عرب نے امریکہ کو دو ٹوک انداز میں انتباہ کر دیا
30
ستمبر 2016
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں