کابل(این این آئی)افغانستان میں پھر طالبان کی حکومت آگئی،امریکی خصوصی نمائندے نے ہی بھانڈہ پھوڑ ڈالا،افغانستان میں سرکاری دستوں کو طالبان کی مسلح کارروائیوں کے نتیجے میں کئی علاقوں سے محروم ہونا پڑااور 36 اضلاع پر طالبان نے قبضہ جمالیا جبکہ مزید 104 اضلاع جنگجوؤں کے کنٹرول میں چلے جانے کا خطرہ ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق امریکا کے افغانستان کی تعمیر نو سے متعلقہ امور کے نگران خصوصی انسپکٹر جنرل کی جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں سرکاری دستوں کے زیر قبضہ علاقے افغان باغیوں کے کنٹرول میں جاتے جا رہے ہیں۔اس رپورٹ میں امریکی فوج کی اعلیٰ کمان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ اس سال جنوری میں افغان سکیورٹی دستوں کو ملک کے کْل 34 صوبوں کے 407 اضلاع میں سے 70.5 فیصد پر کنٹرول حاصل تھا۔ لیکن پانچ ماہ بعد مئی کے آخر تک ایسے اضلاع کا تناسب کم ہو کر 65.6 فیصد رہ گیا تھا۔اس طرح اس سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران افغان سکیورٹی دستے ملک کے قریب پانچ فیصد علاقے پر اپنے قبضے سے محروم ہو گئے۔ ’سیگار‘ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو ماہ قبل مئی کے آخر میں افغانستان کے 34 میں سے 15 صوبے ایسے تھے، جہاں 36 اضلاع یا تو باغیوں اور عسکریت پسندوں کے کنٹرول میں تھے یا ایسے شدت پسندوں کو وہاں بہت زیادہ اثر و رسوخ حاصل تھا۔اس رپورٹ کا کابل حکومت اور امریکا کے لیے ایک پریشان کن پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان میں سو سے زائد (104) اضلاع ایسے بھی ہیں، جہاں باغیوں اور مزاحمت کاروں کے قبضے کا خطرہ ہے۔ سرکاری دستوں اور افغان مزاحمت کاروں کو حاصل جغرافیائی اثر و رسوخ کے تناسب میں اس تبدیلی کی وجوہات کے بارے میں لکھا ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا جنگی مشن باقاعدہ طور پر دسمبر 2014ء میں ختم ہو گیا تھا۔اس کے بعد سے اب تک افغان سکیورٹی دستوں کو طالبان جنگجوؤں کے خلاف لڑتے ہوئے دسمبر 2014ء سے پہلے کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑ رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیٹو میں شامل ممالک کو حال ہی میں یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ افغانستان سے اپنے باقی ماندہ فوجی دستوں کے حتمی انخلا کا عمل مزید سست کر دیں گے تاکہ یہ غیر ملکی دستے مقامی سکیورٹی فورسز کی اور زیادہ عرصے تک مدد کر سکیں۔