جنگجوو ¿ں کے حملوں میں سیکڑوں پولیس اہلکار اور فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔مصری سکیورٹی فورسز نے اس سے پہلے بھی شمالی سیناءمیں جنگجو گروپوں کے خلاف گذشتہ مہینوں کے دوران ایک بڑی کارروائی کی تھی۔مصری فوج کا کہنا ہے کہ اس نے سیناءمیں کارروائیوں کے دوران ایک ہزار سے زیادہ جنگجوو ¿ں کو ہلاک کردیا ہے لیکن ابھی تک وہ شورش پسندی پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔علاوہ ازیںعراق کے شورش کا شکار صوبہ الانبار کے صدر مقام الرمادی میں البغدادی کےمقام پر فوج اور حکومت کو لاجسٹک سپورٹ مہیا کرنے اور دولت اسلامیہ عراق وشام داعش کے خلاف جنگ میں معاونت کے لیے قبائلی جنگجوﺅں پر مشتمل نیا بریگیڈ (لشکر) تشکیل دیا گیا ہے جس میں ابتدائی طور پر 1100 جنگجو شامل کیے گئے ہیں۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق مغربی رمادی سے 90 کلومیٹر دور البغدادی کے علاقے میں قبائل نے یہ لشکر ایسے وقت میں تشکیل دیا ہے جب سرکاری فوج اس علاقے میں داعش کے خلاف برسرپیکار ہے۔ مسلح قبائلی لشکرسے جہاں ایک طرف بغداد کی مرکزی حکومت کو لاجسٹک سپورٹ ملے گی وہیں الانبار کی صوبائی حکومت کو بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں معاونت حاصل ہوگی۔الانبار میں متعین عراقی فوج کے بریگیڈیئر جنرل حمد عبدالرزاق الدلیمی نے منگل کو بتایا کہ البغدادی کے علاقے میں گیارہ سو جنگجوﺅں پر مشتمل لشکر میں وہاں کے مقامی قبائل البونمر، العبید، الکبیسات اور البومحل کے نوجوانوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ لشکر داعش کے خلاف لڑائی میں فوج کی معاونت کرے گا۔بریگیڈیئر الدلیمی کا کہنا تھا کہ الانبارکے داعش کے زیرتسلط شہروں کی واگزاری ہماری اولین کوشش ہے۔ نیا قبائلی لشکر جہاں داعش کی مزید توسیع پسندی کو روکنے میں مدد کرے گا وہیں داعش کے خلاف فوجی آپریشن کو آگے بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ نئے قبائلی لشکری میں شامل جنگجو اس سے قبل داعش کے خلاف جبہ اور بروانہ کے محاذوں پر بھی فوج کے ساتھ لڑائی میں شامل رہ چکے ہیں جن کے ہاتھوں سے دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچایا گیاتھا۔