اسلام آباد(نیوزڈیسک))حکومت نے علمائے کرام کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا ہے کہ مدارس کے بارے میں کوئی بھی قانون سازی ان کی مشاورت سے کی جائے جبکہ عالمی میڈیا کا کہنا ہے کہ حکومت حساس معاملہ ہونے کے باعث مدارس کے بارے میں کوئی بھی قدم اٹھانے میں احتیاط کر رہی ہے اور معاملہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم کی علمائے کرام سے ملاقات میں آرمی چیف نے خود بھی شرکت کی۔امریکی میڈیا کے مطابق گزشتہ دسمبر میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد تیار کیے جانے والے لائحہ عمل کے دیگر نکات پر پیش رفت ہوئی ہے مگر مدارس کے معاملے پر اب تک کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔مختلف اندازوں کے مطابق ملک میں لگ بھگ 30,000 مدارس کام کر رہے ہیں مگر ان کے کوائف، مثلاً طلبا کی تعداد، ذرائع آمدن، نصاب وغیرہ کے متعلق کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں۔رپورٹ کے مطابق ماضی میں مدارس کو ضابطہ قانون میں لانے کی تمام کوششیں ناکام ہو چکی ہیں جس کے باعث حکومت کسی بھی کارروائی سے پہلے مذہبی رہنماو ¿ں کو اعتماد میں لینا چاہتی ہے۔ملک میں دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے کے بعد اس طرح کے شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ کچھ مدارس انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ مگر حکومت اس معاملے پر انتہائی محتاط ہے اور کسی ایسے بیان سے احتراز کرتی رہی ہے جس سے تاثر ملے کہ وہ مدارس کے خلاف سخت کارروائی کرنے جا رہی ہے۔مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ اس معاملے کی اہمیت اور حساس نوعیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی فوج کے سربراہ نے خود اجلاس میں شرکت کی۔ اطلاعات کے مطابق اس اعلیٰ سطحی اجلاس کے انعقاد پر کئی ہفتوں سے کام جاری تھا۔