مقبوضہ بیت المقدس (نیوزڈیسک)اسرائیلی حکومت نے ایک سال قبل غیر فعال کیے گئے قیدیوں کو جبری خوراک دینے کے قانون کی دوبارہ منظوری دے دی ، بھوک ہڑتالی قیدی کو جبرا خوراک دی جاسکے گی،انسانی حقوق کی تنظیموں اور طبی ماہرین نے اسرائیل کے جبری خوراک دینے کے قانون کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے ظالمانہ قانون قرار دیا۔ عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی داخلی سلامتی کے وزیر گیلاد اردن نے کہا ہے کہ فلسطینی قیدیوں کی جانب سے بھوک ہڑتالیں کرنا اسرائیل کے لیے خطرے کا باعث ہے اس لیے ہم نے ایک ایسے قانون کی منظوری دی ہے جس کی رو سے ہراس قیدی کو جبری خوراک دی جاسکے گی جو اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر اسرائیل کے لیے مشکلات پیدا کررہا ہے۔اسرائیلی وزیر نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ “فیس بک” کے اپنے خصوصی صفحے پر لکھا کہ “اسرائیل کے بائیکاٹ کی مہمات، اسرائیل کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنا اور قیدیوں کی بھوک ہڑتالیں اسرائیل کو خطرے میں ڈالنے کے مختلف طریقے ہیں۔خیال رہے کہ جون 2014 میں فلسطینی اسیران نے اجتماعی بھوک ہڑتال شروع کی تھی جس کے باعث 80 اسیران کی حالت بری طرح بگڑ گئی تھی اور انہیں اسپتال منتقل کرنا پڑا تھا۔ اس وقت فلسطینیوں کی بھوک ہڑتال کو ختم کرنے کے لیے ایک متنازعہ قانون پیش کیا گیا جسے پہلی، دوسری اور تیسری رائے شماری کے بعد منظوری کیا گیا تھا۔
مزید پڑھئے:بچوں میں درد کی شدت ناپنے والا سافٹ ویئرتیار
اس قانون کے تحت جیل انتظامیہ کو بھوک ہڑتالی اسیران کو جبری خوراک دینے کا اختیاردیا گیا تھا۔ اگرچہ انسانی حقوق کی تنظیموں کی تنقید کے بعد اس قانون کو غیرفعال کردیا گیا تھا۔ کابینہ کی جانب سے منظوری کے بعد مسودہ قانون کو دوبارہ رائے شماری کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے قیدیوں کو جبرک خوراک دینے کے قانون کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اسرائیل میں قائم “میڈیکل لیگ” کے چیئرمین ڈاکٹر لیونیڈ ایڈلمن نے کہا کہ “قیدیوں کو بزور خوراک دینا طبی اخلاقیات کے منافی اقدام ہے اور دنیا میں کہیں بھی قیدیوں کو جبری خوراک دینے کا کوئی تصور نہیں ہے۔