اتوار‬‮ ، 20 اپریل‬‮ 2025 

آٹھ ماہ کے شیر خوار پاکستانی بچے رایان نے اپنی بہن کی جان بچانے کیلئے کیا چیز عطیہ کر دی

datetime 18  دسمبر‬‮  2016
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

بینگالورو(این این آئی)پاکستان سے تعلق رکھنے والا آٹھ ماہ کا شیر خوار بچہ رایان ہڈیوں کا گودا عطیہ کرکے اپنی بڑی بہن کی جان بچانے والا بھارت کا سب سے کم عمر ڈونر بن گیا۔آیان کی دو سالہ بہن زینیا انوکھی بیماری ہیمافاگوسائٹک لیمفوہسٹیوسائٹوسز (ایچ ایل ایچ) کا شکار تھی اور اس کا بون میرو غیر معمولی خلیات پیدا کر رہا تھا جو میرو کے نارمل خلیات کو نقصان پہنچا رہے تھے جس کا واحد علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ تھا۔کامیاب آپریشن کے دو ماہ بعد اب دونوں بھائی بہن تیزی سے روبصحت ہورہے ہیں اور جلد اپنے والدین کے ہمراہ آبائی شہر ساہیوال آجائیں گے۔زینیا میں 11 ماہ کی عمر تک یہ بیماری ظاہر نہیں ہوئی تھی تاہم پھر اسے اچانک تیز بخار رہنے لگا جس کا علان اینٹی بائیوٹکس سے بھی ممکن نہ ہوا۔
تفصیلی طبی معائنے کے بعد زینیا کو ہڈیوں کے گودے کی بیماری لاحق ہونے کی تشخیص ہوئی جو اس کے لیے جان لیوا بھی ہوسکتی تھی۔زینیا میں پیدائش کے وقت سے جزوی برصیت کی بھی تشخیص ہوئی تھی۔زینیا کے والد ضیا اللہ نے بتایا کہ پہلے ہمیں بتایا گیا کہ اس مرض کا علاج ممکن نہیں جس کے بعد ہم ناامید ہوچکے تھے تاہم پھر ہمیں ایسے ہی ایک کیس کا نرایانا ہیلتھ سٹی (این ایچ سی) میں علاج کا پتہ چلا، ہم اس بات پر انتہائی خوش ہیں کہ ہم بھارت آکر اپنی بیٹی کا کامیاب علاج کراسکے جس پر ہم ڈاکٹروں کی پوری ٹیم کے شکر گزار ہیں ٗہسپتال داخل کرائے جانے کے بعد پہلے زینیا کی حالت کو مستحکم کیا گیا جس کے بعد مختلف ٹیسٹ کے ذریعے پتہ چلا کہ ان کے آٹھ ماہ کے بھائی کا ایچ ایل اے ان سے پوری طرح مماثلت رکھتا ہے تاہم رایان کی عمر انتہائی کم ہونے کے باعث ڈاکٹروں کیلئے یہ آپریشن انتہائی پیچیدہ تھا۔
سینئر کنسلٹنٹ اور ہسپتال میں پیڈیاٹرک ہیماٹولوجی، آنکولوجی اینڈ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے سربراہ ڈاکٹر سنیل بھٹ نے کہا کہ ڈونر کے اعتبار سے یہ کیس انتہائی مشکل تھا اور چونکہ ڈونر ایک 8 ماہ کا شیر خوار بچہ تھا اس لیے ہمیں آپریشن کو اس کی پیچیدگی کے باعث دو مراحل میں مکمل کرنا پڑا۔انہوں نے کہاکہ رایان نے بون میرو عطیہ کرکے ناصرف اپنی بہن کی جان بچائی بلکہ وہ بھارت کا سب سے کم عمر ڈونر بھی بن گیا ۔
این ایچ سی میں سینئر کنسلٹنٹ ہیماٹولوجسٹ اینڈ کلینیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر شَرت دامودر نے کہا کہ ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ ہم ناصرف پاکستان بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے متعدد مریضوں کے علاج کی صلاحیت رکھتے ہیں۔زینیا کے والد ضیا اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان واپس پہنچ کر ہم ایک آن لائن پیج کے آغاز کا سوچ رہے ہیں جہاں ہم اپنی کہانی لوگوں سے شیئر کریں گے، تاکہ پاکستان میں لوگوں میں اس بیماری اور اس کے ممکنہ علاج سے متعلق آگاہی پیدا ہوسکے۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



ڈیتھ بیڈ


ٹام کی زندگی شان دار تھی‘ اللہ تعالیٰ نے اس کی…

اگر آپ بچیں گے تو

جیک برگ مین امریکی ریاست مشی گن سے تعلق رکھتے…

81فیصد

یہ دو تین سال پہلے کی بات ہے‘ میرے موبائل فون…

معافی اور توبہ

’’ اچھا تم بتائو اللہ تعالیٰ نے انسان کو سب سے…

یوٹیوبرز کے ہاتھوں یرغمالی پارٹی

عمران خان اور ریاست کے درمیان دوریاں ختم کرنے…

بل فائیٹنگ

مجھے ایک بار سپین میں بل فائٹنگ دیکھنے کا اتفاق…

زلزلے کیوں آتے ہیں

جولیان مینٹل امریکا کا فائیو سٹار وکیل تھا‘…

چانس

آپ مورگن فری مین کی کہانی بھی سنیے‘ یہ ہالی ووڈ…

جنرل عاصم منیر کی ہارڈ سٹیٹ

میں جوں ہی سڑک کی دوسری سائیڈ پر پہنچا‘ مجھے…

فنگر پرنٹس کی کہانی۔۔ محسن نقوی کے لیے

میرے والد انتقال سے قبل اپنے گائوں میں 17 کنال…

نارمل معاشرے کا متلاشی پاکستان

’’اوئے پنڈی وال‘ کدھر جل سیں‘‘ میں نے گھبرا…