نیو یارک۔۔۔۔نیو ہورائزن 14 جولائی کو پلوٹو سیارے کی گردش پوری کرے گا لیکن ہم تک اعداد و شمار پہنچنے میں ایک سال سے زیادہ لگیں گے۔اس سال فلکیات کے شعبے میں ’ہبل سے بہتر‘ اہم اصطلاح رہے گی کیونکہ دو اہم واقعات کا پہلی بار مشاہدہ ہونے والا ہے۔ایک یہ کہ پہلی بار ڈان سپیس کرافٹ سیریس کی تصاویر بھیجنا شروع کرے گا۔واضح رہے کہ سیارہ مریخ اور مشتری کے درمیان سیارچوں کے خطے میں سیریس سب سے بڑی چیز ہے اور سائنسدانوں کے مطابق اس کی تصویر 26 جنوری سے موصول ہونے لگے گی۔دوسرے واقعے کی ابتدا مئی سے ہوگی جب ’نیو ہورائزن پروب‘ پلوطان پر اترے گا اور وہا ں سے تصاویر بھیجے گا۔ہبل کی حیرت انگیز صلاحیت والے دوربین سے ہمیں کائنات کے ان علاقوں کی دھندلی اور دھبے دار تصاویر ہی موصول ہوئی ہیں اور پلوٹو کے بارے میں دھبے دار کہنا بھی ذرا زیادہ ہے۔یہ 13 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے سرگرم سفر ہے اور ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے والا ہے
اگر ’سال 2014 دمدار ستاروں کا سال‘ رہا تھا جس میں بطخ کی شکل کا دمدار تارا 67پی نظر آیا تھا تو ’2015 نظام شمشی کے سب سے چھوٹے سیارے سے ہم آہنگ ہونے کا سال‘ رہے گا۔جو لوگ اس علم کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں کہ نظام شمشی میں ’نو سیارے‘ ہیں یہ موقع ان کے لیے اہم ہوگا جب اس کے بارے میں زیادہ بہتر معلومات ملیں گی۔ہم لوگ وائجر ٹو سے یورینس اور نیپچیون تک سنہ 1980 کی دہائی کے اواخر میں رسائی حاصل کر چکے ہیں تاہم پلوٹو پانچ ارب کلومیٹر کی دوری پر ایک اہم چیلنج رہا ہے۔
جس طرح روزیٹا سیٹیلائٹ کو دم دار تارے 67 پی تک پہنچنے میں دس سال کا عرصہ لگا تھا اسی طرح نیو ہورائزن گذشتہ نو برسوں سے پلوٹو پر پہنچنے کے لیے سفر میں ہے اور یہ اب تک کے سب سے تیز سیٹیلائٹ کا ریکارڈ توڑنے والا ہے۔ہبل ٹیلیسکوپ سے زیادہ بہتر تصویریں سیریس سے آنے والی ہیں
اور روزیٹا کی طرح ہی ہم اس مشن سے تصاویر کی امید کرتے ہیں جو ہمیں ممکنہ طور حیرت و استعجاب کے دریا میں بہا لے جائے گی۔نیو ہورائزن کے نگران اعلی نے بی بی سی کو بتایا: ’یہ ایک طرح سے سنہ 1960 اور 70 کی دہائیوں کے دور کی واپسی ہے جب ہر چیز ہمارے لیے نئی تھی۔ زہرہ پر پہلا مشن پہنچا تھا، مریخ پر پہلا مشن پہنچا تھا، ہر جگہ پہلا مشن گیا تھا۔‘انھوں نے کہا: ’لوگ درسی کتاب کی از سر نو تحریر کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں ہم از سر نو نہیں لکھیں گے بلکہ ہم پہلی بار درسی کتاب لکھیں گے۔ یہ اتنا نیا ہے۔ یہ ایسا ہے جیسے ہم نے 60 اور 70 کی دہائی سے علیحدہ کچھ نیا کیا ہے اور ہم یہ 21 ویں صدی کی ٹکنالوجی سے کر رہے ہیں۔‘اگر سب درست رہا تو 14 جولائی کی ملاقات ایک اڑان ہی ہوگی۔ نیو ہورائزن بہت تیزی سے سفر کر رہا ہے 13 کلومیٹر فی سیکنڈ کی رفتار سے اور پلوٹو کی قوت ثقل بہت کم ہے۔ اس خلائی گاڑی میں نصب سات آلے جو اعداد و شمار بھیجیں گے وہ ہمیں ناامید نہیں کریں گے۔
پلوٹو کے بارے میں ہماری معلومات نہ کے برابر ہیں
ابھی ہمیں پلوٹو کے بارے میں بس اتنا ہی معلوم ہے کہ دو تہائی چٹان ں بہت سی برف سے ڈھکی ہوئی ہیں اور ہرچند کہ اس کی سطح پر منجمد کرنے والی منفی 230 ڈگری درج حرارت ہے لیکن اس کے جغرافیائی اور طبعی حالات بتاتے ہیں کہ اس کے نیچے کہیں سمندر چھپا ہوسکتا ہے۔اور اس کے پانچ چاند ہیں جن میں سے چار چاند ناسا کے مشن نے دریافت کیا ہے۔ پہلے سے ہم جسے جانتے تھے اس کان چیرن (کیران) ہے لیکن نیو ہورائزن سے وہاں کے سربستہ راز کھلیں گے۔