انقرہ۔۔۔۔ترکی کی ایک عدالت نے اس نوجوان کو رہا کرنے کا حکم دیا ہے جسے بدھ کے روز صدر کی توہین کے الزام میں سکول سیگرفتار کر لیا گیا تھا۔اس سولہ سالہ نوجوان کا نام ظاہر نہیں کیاگیا ہے اور عدالت میں اسے صرف ایم ای اے کہہ کر مخاطب کیاگیا ہے۔اس سولہ سالہ نوجوان نے کونویا کے شہر میں ایک تقریر میں صدر کو ’محل چور‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا۔ نوجوان کی تقریر میں محل کا حوالہ اس صدارتی محل سے متعلق تھا جسیرجب طیب اردوگان کے دوران حکومت میں تعمیر کیاگیا ہیاور موجودہ صدر نے اکتوبر میں اس کا افتتاح کیا۔عدالتی فیصلے سے نوجوان کی حراست کا تو اختتام ہو گیا لیکن اب بھی اس کے خلاف مقدمہ چلنے کا امکان موجود ہے۔ ترکی کے قوانین کے مطابق صدر کی توہین کرنے والیکو چار سال تک قید کی سزا سنائی جاسکتی ہے۔ملکی حزب اختلاف نے سولہ سالہ نوجوان کی گرفتاری پر وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت سی ایچ پی کے ممبر اتالیا کارت نے نوجوان کی گرفتاری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہ صدر ملک میں خوف اور جبر کی فضا پیدا کر رہے ہیں۔البتہ وزیر اعظم احمد داؤد اوغلو نے نوجوان کی گرفتاری کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے ہر کسی کو صدر کے عہدے کا احترام کرنا چاہیے، خواہ صدر کوئی بھی ہو۔البتہ سولہ سال نوجوان نے کہا کہ اس کا کسی سیاسی جماعت سے تعلق نہیں ہے لیکن وہ اپنی راہ سے نہیں ہٹیگا۔ نوجوان نے عدالت میں پراسیکوٹر سے کہا کہ اس نے ایک بیان دیا ہے لیکن اس کا مقصد کسی کی توہین نہیں ہے۔ترکی کے رہنما رجب طیب اردوگان الزام لگاتیرہے ہیں کہ امریکہ میں مقیم مذہبی رہنما فتح اللہ گولن ان کو اقتدار سے علیحدہ کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔فتح اللہ گولن پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردوگان کے حامی ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ امریکہ میں خود اختیاری جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔حکومت نے فتح گولن کے حامی ٹی وی چینل کو بند کرکے بعض صحافیوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ فتح اللہ گولن ترکی میں متوازی حکومت چلانا چاہتے ہیں۔