کراچی ۔۔۔۔سندھ ہائی کورٹ نے اغوا اور قتل کے جرم میں سزائے موت کے منتظر قیدی شفقت حسین کی سزا پر عمل درآمد کے خلاف درخواست تکنیکی بنیادوں پر مسترد کر دی ہے۔24 سالہ شفقت حسین کا نام ان 17 افراد کی ابتدائی فہرست میں شامل ہے جنھیں وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو سزائے موت دینے کے اعلان کے بعد پھانسی دینے کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔شفقت کی سزا پر عمل درآمد کے خلاف درخواست سماجی تنظیم جسٹس پروجیکٹ پاکستان کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔منگل کو اس معاملے کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ کی جج جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یہ درخواست شفقت حسین کی کم عمری کو مدِ نظر رکھنے سے متعلق ہے اس لیے سندھ کی عدالتِ عالیہ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی کیونکہ اسی کیس میں عدالتِ عظمیٰ پہلے ہی ایک فیصلہ دے چکی ہے۔خیال رہے کہ پیر کو جسٹس علی مظہر نے حکومت سے یہ وضاحت بھی طلب کی تھی کہ شفقت کا نام دہشت گردوں کی فہرست میں کیوں شامل ہے۔واضح رہے کہ شفقت حسین کے کیس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کیونکہ ٹرائل کورٹ میں ان کی عمر کے معاملے کو نہیں اٹھایا گیا تھا اس لیے اب عدالتِ عظمٰی کسی نئے ثبوت پر غور نہیں کر سکتی۔
شفقت حسین کی وکیل بیرسٹر سارہ بلال کا کہنا ہے کہ ملزم شفقت حسین کا خاندان بہت ہی غریب ہے اور انھیں ٹرائل کورٹ میں اپنے مقدمے کی پیروی کے لیے سرکاری وکیل پر انحصار کرنا پڑا تھا جس نے ان کا مقدمہ صحیح انداز میں نہیں پیش کیا یہاں تک کہ ان کی کم عمری کا معاملہ بھی عدالت کے سامنے نہیں اٹھایا گیا۔شفقت حسین کو کراچی میں سنہ 2004 میں ایک بچے کے اغوا اور قتل کے جرم میں موت کی سزا سنائی گئی تھی اور جس وقت مبینہ طور پر انھوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا تھا ان کی عمر 14 برس تھی۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں شفقت حسین کے مقدمے کو ایک ’ٹیسٹ کیس‘ کے طور پر پیش کیا ہے اور اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس نے ان سے تشدد کے ذریعے اعترافی بیان حاصل کیا تھا۔
موت کی سزا پر عمل درآمد کے خلاف درخواست مسترد
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں