اسلام آباد۔۔۔۔۔ایک اماراتی امیگریشن افسر نے ایک بار میرا پاسپورٹ دیکھ کر کہا تھا “آخر تم نے یہاں میسی کی تصویر کیوں لگارکھی ہے؟”۔پاکستان کے عالمی کرکٹ میں ابھرتے لیگ اسپنر یاسر شاہ نے ایک پاکستانی اخبار کوخصوصی انٹرویو کے دوران قہقہ لگاتے ہوئے کہا “میں نے اسے اپنا شناختی نشان اور کرکٹ تصاویر دکھا کر قائل کیا کہ یہ میرا ہی پاسپورٹ ہے ورنہ تو”۔اگرچہ یاسر شاہ ابھی انٹرنیشنل سپراسٹار نہیں بنے مگر انہوں نے چند ہفتوں قبل آسٹریلیا کے خلاف متاثر کن ڈیبیو کرکے کرکٹ حلقوں کو چونکا کر اپنی شناخت ضرور قائم کرلی تھی، اور ان کے کوچز کا تو ماننا ہے کہ 28 سالہ یہ کھلاڑی آنے والے برسوں میں پاکستان کا ایک اہم ترین باؤلر ثابت ہوگا۔پاکستانی اسپن با لنگ کوچ مشتاق احمد کا کہنا ہے”اس کے پاس وہ تمام وارئٹی موجود ہے جو ایک لیگ اسپنر کو درکار ہوتی ہیں، ہمیں بس اس کی ایکوریسی کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے”۔اگرچہ وہ دو مقامی لیگ بریک ہیروز کے عہد میں پلے بڑھے مگر یاسر آسٹریلین لیجنڈ شین وارن سے متاثر ہونے کو اپنے اس کھیل میں آنے کی وجہ بتاتے ہیں۔
ان کے بقول”یہ 1996۔97 کی کارلٹن اینڈ یونائیٹیڈ سیریز کی بات ہے جب میں تمام پاکستانی میچز دیکھنے کے لیے آدھی رات کے بعد بیدار ہوتا تھا اور اس سیریز کے اختتام تک میں نے جان لیا تھا کہ میں ایک کرکٹر بننا چاہتا ہوں”دس برس قبل یاسر نے صوابی کے ایک مقامی کرکٹ کلب کی گراؤنڈ میں شین وارن کے ایکشن کی نقل کرنا شروع کردی تھی”میں پچ کے کافی آگے آکر گیند کرنے کا عادی تھا، ورنہ وہ گیند وکٹ تک پہنچ ہی نہیں پاتی تھی”۔تاہم یہ معاملہ اس وقت یاسر کے لیے سنجیدہ ہوگیا جب ان کے والد نے نماز کے لیے مسجد میں ان کی موجودگی میں تعطل آنے اور کرکٹ میں بڑھتی دلچسپی کا نوٹس لیا، تاہم کزنز کے دباؤ، فیلڈ میں سخت محنت کے بہتر نتائج نے والد کو اپنے بیٹے کی صلاحیت کا قائل کیا۔جیسے جیسے ان کا کھیل بہتر ہوا یاسر نے محسوس کیا کہ اسے اپنے کیرئیر کے اگلے مرحلے میں داخل ہونے کے لیے بہتر کرکٹرز سے کھیلنے کی ضرورت ہے”میں نے صوابی میں دو سال تک کھیلا اور پھر میرا کزن مجھے پشاور کی کرکٹ اکیڈمی میں لے گیا، جہاں میں نے مزید دو سال گزارے جس کے بعد مجھے پاکستان کی انڈر 15 میں جگہ مل گئی”۔تاہم انگلی کی ایک انجری نے یاسر کو انڈر 15 سے باہر کردیا مگر بہتر کارکردگی کو جاری رکھ کر وہ سری لنکا کے خلاف ایک ہوم سیریز کے لیے انڈر 19 ٹیم کا حصہ بنے جس میں اس وقت مستقبل کے انٹرنیشنل کرکٹرز سلمان بٹ اور عمر گل بھی شامل تھے۔یاسر شاہ وہ دور یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں”وہ پورا وقت میں پشاور میں پریکٹس کرتا رہا جہاں مجھے سنیئرز سے مجھے زیادہ سپورٹ ملی، جنھوں نے مجھے بتایا کہ ایک دن میں پاکستان کے لیے ٹیسٹ کرکٹ ضرور کھیلوں گا”۔وہ کزن جس نے یاسر کو پروفیشنل کرکٹ میں لانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، انگلینڈ منتقل ہوگیا جہاں سے اس نے لیگ اسپنر کو شین وارن کی انگلش کاؤنٹی سیزن کے دوران با لنگ اور کوچنگ ویڈیوز ارسال کیں”میں نے آسٹریلین اسپنر کی ٹپس اور ہدایات ان ویڈیوز میں سنیں اور ان کے انداز میں با لنگ کرنے کی کوشش کی، یعنی سب کچھ بنیادی لیگ اسپن سے لیکر فلپرز اور ٹاپ اسپن وغیرہ”۔عقیدت کے اس درجے کو دیکھتے یہ تو فطری تھا کہ یاسر کا ایکشن بھی وارن کے انداز کا ہو”میں ان کی طرح ہی اسٹارٹ، رن اپ اور اپنے ہاتھو کو اوپر سے لاتا تھا”۔اہم اس میں تبدیلی اس وقت آئی جب یاسر کو نیشنل کرکٹ اکیڈمی(این سی اے) میں سابق فاسٹ بولر عاقب جاوید کی کوچنگ میں بھیج دیا گیا”انہوں نے محسوس کیا کہ میں گیند کو صحیح طرح گھما نہیں پاتا اور میری ٹانگ میرے پرانے ایکشن کے ساتھ صحیح انداز سے لینڈ نہیں ہوتی تو انہوں نے مجھے اس کو بہتر بنانے کا کہا”۔عاقب جاوید کے مطابق اس تبدیلی نے یاسر کی گیندوں کے ٹرن اور کنٹرول کو مکمل طرو پر بدل کر رکھ دیا، ڈان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے لیگ اسپنر با لر کی تیکنیکس میں بہتری کی وضاحت کی، یعنی اسپن بڑح گئی، جسم کی حرکت میں گیند پھینکنے کے دوران استحکام آیا اور رفتار بڑھ گئی۔
انہوں نے کہا”ایک با لر گیند پھینکنے کے دوران جتنا اپنے جسم پر کنٹرول کرے گا، اتنی ہی بہتر وہ گیند گرنے کے بعد ثابت ہوگی، تو ہمارا مقصد یاسر کے کنٹرول کو بہتر بنانا تھا جس کے لیے اس کے اوریجنل ایکشن میں کچھ تبدیلیاں لائی گئیں”۔یاسر بھی تسلیم کرتے ہیں ان کی گگلی زیادہ اچھی نہیں تھی”اب میں گگلی کرنے کے قابل ہوگیا ہوں مگر ابھی بھی مجھے عبدالقادر اور مشی بھائی جیسے معیار تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا ہوگا”۔تاہم یہ چیز یاسر کو ڈومیسٹک کرکٹ سرکٹ میں ابھرنے سے نہیں روک سکی، انہوں نے پاکستان کسٹم کی جانب سے کھیلتے ہوئے سات میچوں میں 37 وکٹیں حاصل کرکے 2008 میں زمبابوے کے خلاف ہوم سیریز سے قبل قومی سلیکٹرز کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالی، تاہم سائیڈ میچز میں اچھی کارکردگی کے باوجود وہ قومی اسکواڈ میں جگہ بنانے میں ناکام رہے بلکہ پاکستانی اکیڈمی کی ٹیم کے ٹور پر طیارے میں روانہ کردیئے گئے۔ایک متاثر کن ٹور کے بعد آخرکار یاسر کو 2011 میں زمبابوے کے خلاف ون ڈے سیریز میں پاکستان کی نمائندگی کا موقع ملا، تاہم اپنی با لنگ سے متاثر کرنے میں ناکام رہے مگر پھر بھی غیرملکی سرزمین پر پاکستانی پرستاروں کے اوپر اپنے جوش سے اثرات مرتب کیے”اگر آپ گراؤنڈ میں توانائی کا اظہار نہیں کریں گے یا آگے بڑھ کر کھیلتے نظر نہیں آئیں گے، تو ایسا نظر آئے گا کہ آپ کا ذہن کہیں اور ہے، یہ وہ چیز ہے جس کے لیے آپ پوری زندگی کوشش کرتے ہیں یعنی پاکستان کی جانب سے کھیلنا، تو ایک بار جب آپ کو موقع ملتا ہے تو پھر آپ کو اپنی پوری صلاحیت اس پر صرف کردینی چاہئے”۔جذبے سے ہٹ کر بھی یاسر ایک بہت اچھے فیلڈر بننے کے بھی خواہشمند ہیں”بالکل جونٹی رہوڈز جیسا”، اگر آپ ان پر یقین کرسکے تو۔اس کے علاوہ متعدد پاکستانی باؤلرز کے برعکس یاسر نے بیٹنگ کی صلاحیت کا بھی اظہار کیا ہے”بارہ سال تک ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے سے مجھے ایک پروفیشنل کرکٹر بننے میں بہت زیادہ مدد ملی ہے، میرے پانچ اولین فرسٹ کلاس ٹیم کے کھلاڑی پاکستان کی جانب سے کھیل رہے تھے جس سے مجھے انٹرنیشنل کرکٹ کے لیے تیار ہونے میں مدد ملی”۔یاسر کے بقول جب آخرکار ٹیسٹ کے لیے انہیں طلب کیا گیا تو وہ بہت زیادہ پرجوش تھے اور ایسا نظر آیا ان کی ٹیسٹ کیپ لگتا تھا کہ گوند کی مدد سے ان کے سر سے جڑی ہوئی ہے۔
ایک قہقہے کے ساتھ یاسر نے انکشاف کیا”جب آپ بہت زیادہ محنت کرکے کوئی کامیابی حاصل کرتے ہیں تو اس کے لیے آپ کی محبت مزید بڑھ جاتی ہے”۔ایک ایسی نسل جس میں فاسٹ باؤلر بننا بہت آسان اور عام ہے دریاؤں کے امتزاج کی سرزمین سے تعلق رکھنے والے اٹھائیس سالہ یاسر شاہ اپنی صلاحیت کی بدولت ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔مقامی ماہرین کے مطابق وہ اب ٹیم اور ملک کے مقبول ترین کھلاڑیوں میں سے ایک یعنی شاہد آفریدی سے سے بھی سبقت لے جانا والا ہے۔
تاہم وہ آفریدی کو ون ڈے ٹیم سے ہٹانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔اس وقت تو یاسر یہ جانتے ہیں کہ ابھی انہیں اپنا نام بنانے کے لیے طویل سفر طے کرنا ہوگا۔