اسلام آباد (نیوز ڈیسک)قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر خان کی سربراہی میں منعقد ہوا، جس میں وزارت توانائی کے آڈٹ اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔اجلاس کے دوران توانائی کے شعبے کے حکام نے آئی پی پیز سے متعلق بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2015 میں نجی بجلی گھروں (IPPs) کی انسٹالڈ صلاحیت 9765 میگا واٹ تھی جو 2024 تک بڑھ کر 25642 میگا واٹ تک جا پہنچی ہے۔ مزید بتایا گیا کہ 2015 میں ان پاور پلانٹس سے متعلق سالانہ کیپیسٹی پرچیز پرائس 141 ارب روپے تھی، جو اب 1.4 ٹریلین روپے ہو چکی ہے۔
بریفنگ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 2014 میں 90 بلین کلو واٹ آور جبکہ 2015 میں 58 بلین کلو واٹ آور بجلی پیدا کی گئی۔رکن کمیٹی سید نوید قمر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاور ڈویژن بجلی کے مہنگے ہونے کا ذمہ دار کوئلے کو ٹھہرا رہا ہے۔ چیئرمین کمیٹی جنید اکبر نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گنے کے پھوک سے 200 فیصد تک بجلی کی پیداوار کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟ جس پر سی پی پی اے کے نمائندے نے وضاحت دی کہ اندازہ 45 فیصد پیداوار کا لگایا گیا تھا، لیکن اصل پیداوار اس بینچ مارک سے زیادہ نکلی۔اجلاس کے دوران 200 یونٹس کے بعد بجلی کے نرخ بڑھنے سے متعلق سلیب سسٹم پر بھی بحث ہوئی۔ کمیٹی نے وزارت توانائی سے اس معاملے پر مکمل وضاحت طلب کر لی ہے۔چیئرمین پی اے سی جنید اکبر نے سوال اٹھایا کہ ایک بار بھی اگر صارف 200 یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرے تو چھ ماہ تک اضافی بل کیوں بھیجا جاتا ہے؟ اس پر وزارت توانائی کو واضح پالیسی دینے کی ہدایت کی گئی۔
شازیہ مری نے کہا کہ جب ملک میں وافر بجلی دستیاب ہے تو پھر سندھ اور خیبر پختونخواہ کے کئی علاقوں میں 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کیوں جاری ہے؟سیکریٹری پاور ڈویژن نے آگاہ کیا کہ 200 یونٹس یا اس سے کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد گزشتہ تین سے چار سال میں 11 ملین سے بڑھ کر 18 ملین ہو گئی ہے، جو کل صارفین کا تقریباً 58 فیصد بنتے ہیں۔ ان کے مطابق اگر یہ حد بڑھائی گئی تو حکومت کو مزید سبسڈی دینی پڑے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ 2027 تک مرحلہ وار موجودہ سبسڈی سسٹم سے نکل کر بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کے ڈیٹا کی مدد سے مستحق افراد کو براہِ راست سبسڈی فراہم کی جائے۔سیکریٹری کے مطابق 200 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والوں کو سبسڈی دی جا رہی ہے، اور اگر کوئی صارف ایک یونٹ زیادہ بھی خرچ کر لے تو سبسڈی کا سلسلہ پھر بھی مکمل ختم نہیں ہوتا۔ انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ چھ ماہ کے اضافی بل کی شرط میں نرمی پر غور کیا جا رہا ہے۔