کراچی(آن لائن )ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ ڈاکٹر امیرشیخ نے کہاہے کہ حالیہ بینک اسکیمنگ کی کوئی اطلاع ایف آئی اے کو نہیں دی گئی لیکن اپنے طور پر تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔گزشتہ چند روز کے دوران کراچی اور اسلام آباد میں سیکڑوں اے ٹی ایم صارفین کا ڈیٹاحاصل کر کے ان کی رقم چوری کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا اور نقب زنی کی اس تکنیکی واردات میں چینی باشندوں کے بھی ملوث ہونے کا انکشاف ہوا تھا۔ڈائریکٹر ایف آئی اے
سندھ ڈاکٹر امیر شیخ نے کہا کہ ماضی میں ایسے چار کیسز ڈیٹیکٹ کیے، ماضی میں بینک شکایت لے کر ہمارے پاس آیا تو پھر ہم نے کارروائی کی اور 3 چائینیز کو گرفتار کیا۔انہوں نے کہا کہ تاحال حالیہ اسکیمنگ کی باقاعدہ کوئی اطلاع نہیں دی گئی لیکن ایف آئی اے نے اپنے طور تحقیقات کا آغاز کردیا ہے، بینک انتظامیہ سے ہم نے خود رابطہ کیا ہے اور معلومات طلب کی ہے۔ڈائریکٹر ایف آئی اے کا کہنا تھا کہ ’ہم نے سائبر کرائم کے ماہرین کو تحقیقات کی ذمے داری سونپ دی ہے، بینک انتظامیہ معلومات اکٹھا کرکے تفصیلات ہمیں فراہم کرے گی جب کہ کوئی متاثرہ شخص آئے یا بنک شکایت کرے تو کارروائی کرسکتے ہیں‘۔ترجمان ایچ بی ایل نوید اصغر کا کہنا ہے کہ تحقیقات کے بعد متاثرہ صارفین کے اکاؤنٹس میں رقم جمع کرانا شروع کردی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ بینک انتظامیہ اسکیمنگ سے متاثرہ اکاؤنٹس صارفین سے مسلسل رابطے میں ہے جب کہ قانون کے تحت اسٹیٹ بینک سمیت تمام متعلقہ اداروں کو معلومات فراہم کردی ہیں۔دوسری جانب متاثرہ اکاؤنٹس ہولڈر نے بتایا کہ بینک کو خط میں رقم نکلنے کی مکمل تفصیل فراہم کی تھی اور تحقیقات کے بعد بینک نے پوری رقم اکاؤنٹ میں منتقل کردی ہے۔ذرائع کے مطابق مجموعی طور پر 585 صارفین کے اکاؤنٹس متاثر ہوئے جنہیں رقم واپس ملنا شروع ہوگئی ہے۔تکنیکی نقب زنی کی اس واردات میں اے ٹی ایم مشینوں پر اسکمرز لگائے گئے جس سے عام صارف لاعلم رہتا ہے اور صارف پیسے تو پاکستان میں نکالتا ہے لیکن وہ چین میں کسی شخص کو موصول ہوتے ہیں۔ اے ٹی ایم مشین میں ٹیکنالوجی سے نقب لگانے کا طریقہ اسکمنگ کہلاتا ہے اور نقب زنی کے لئے کبھی اے ٹی ایم کی کارڈ سلاٹ پر دو نمبر کارڈ ریڈر چپکا دیا جاتا ہے یا کہیں دو نمبر ‘کی پیڈ’ اے ٹی ایم پر لگایا جاتا ہے۔جرم کی اس کہانی میں ایک اور ٹوئسٹ خفیہ کیمرے کا ہے جس کی آنکھ اے ٹی ایم کا پن کوڈ ریکارڈ کرکے سارا ڈیٹا اپنے کرائم ماسٹر تک پہنچا دیتی ہے