اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک/این این آئی )سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی کے اہل خانہ نے ان پر لگائے ہوئے تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بے بنیاد دعوؤں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں۔گزشتہ روز سپریم کورٹ میں ایڈووکیٹ میاں داؤد کی جانب سے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کیخلاف ریفرنس دائر کیا گیا
جس میں کہا گیا کہ ان کے اثاثوں میں حالیہ دنوں میں 3 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے، وہ مس کنڈکٹ، ناجائز اثاثے بنانے کے مرتکب ہوئے ہیں اور فرنٹ مین کے ذریعے وہ بڑے عہدوں پرپوسٹنگ بھی کراتے رہے ہیں۔نجی ٹی وی سماء کے مطابق تاہم ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئےجسٹس مظاہرعلی نقوی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ ان بے بنیاد اور جھوٹے دعوؤں کا جواب دینے کو تیار ہیں۔فیملی ذرائع کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے جج پر لگے تمام الزمات جھوٹے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان جب چاہیں جسٹس مظاہر علی اکبر کے خلاف انکوائری کرواسکتے ہیں، معزز جج پیش ہونے کیلیے تیار ہیں۔فیملی ذارئع نے کہا کہ بینکنگ ریکارڈ کی تفصیلات حاضر ہیں، انہوں نے اپنی زیرتعلیم صاحبزادی کو اپنے ذاتی اکاونٹس سے 22000 پاؤنڈز برطانیہ بھیجے۔ یہ رقم انہوں نے اپنے سرکاری سیلری اکانٹ سے 2022 میں بھیجی جو کہ اسٹیٹ بینک کی اجازت سے منتقل کی گئی تھی۔ذرائع کا کہنا تھا کہ بیٹے امریکا سے پڑھ کرایک بین الاقوامی قانونی فرم چلارہے ہیں، دونوں چوٹی کے وکیل ہیں اور آزادانہ پریکٹس کرتے ہیں، ان سمیت بچوں پرلگے تمام الزامات غلط ہیں۔جائیداد سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے فیملی ذرائع کا کہنا تھا کہ لاہورمیں 4 کنال کا گھر دوبڑے گھر فروخت کرکے تعمیر کیا جارہا ہے۔ایک گھرگلبرک لاہوراور دوسرا ڈی ایچ اے گوجرانوالہ میں فروخت کیا ہے
ان میں سے کوئی بھی پلازہ نہیں ہے تاہم گھروں کی سیل ڈیڈ اور تمام پلاٹس کی تفصیلات ایف بی ار کے پاس موجود ہے۔سابق وزیراعلی پنچاب پرویزالہیٰ سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع کا کہنا تھا کہ دونوں کی ملاقات گھر پر ہوئی۔ وزیراعلیٰ پنجاب معذرت کیلیے پچھلے سال ستمبر کی رات کو
گھرلاہورمیں تشریف لائے تھے مگر چوہدری پرویزالہیٰ سے جسٹس مظاہر نقوی کا کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پرویزالہیٰ یا مونس الہیٰ سے کبھی بات نہیں ہوئی، البتہ محمد خان بھٹی نے فون پربات کروائی تھی، اسی بات چیت کو ڈاکٹرڈ کیا گیا ہے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت (آج)پیر کو دوبار ہوگی
۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان میں نو رکنی لارجر بینچ (آج)پیر کو ساڑھے گیارہ بجے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت دوبارہ کریگا ۔چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل،
جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللّٰہ شامل ہیں۔میڈیا رپورٹ کے مطابق از خود نوٹس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ اس بات کا تعین کرے گی کہ آئین کے تحت مختلف حالات میں کسی صوبائی اسمبلی کے تحلیل ہونے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری اور اختیار کس کے پاس ہے۔دوسری جانب پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی نے فل کورٹ بنانے کیلئے
درخواست دائر کر رکھی ہے ۔سپریم کورٹ میں درخواست فاروق ایچ نائیک، کامران مرتضیٰ اور منصور عثمان ایڈووکیٹ کے توسط سے دائر کی گئی تھی ۔درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ کیس کی سماعت کیلئے تمام ججز پر مشتمل فل کورٹ بنائی جائے، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو فل کورٹ میں شامل نہ کیا جائے۔درخواست میں مؤقف اپنایا گیا تھا کہ دونوں ججز صاحبان پہلے سے
اپنا مائنڈ کیس میں اپلائی کر چکے ہیں، کئی آئینی، قانونی، عوامی اہمیت کے سوال سامنے آ چکے ہیں جن پر سماعت ضروری ہے۔جمعہ کو ہونے والی سماعت کے دور ان عدالت نے کہا تھا کہ پیر کے دن فل کورٹ بینچ بنانے یا نہ بنانے کے سوال پر سماعت ہوگی، پیر کے دن 2 ججز پر اٹھائے گئے
اعتراض کو بھی سنیں گے۔واضح رہے کہ دو وز قبل سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیا تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے از خود نوٹس کیلئے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا، جس کے بعد از خود نوٹس پر سماعت کیلئے 9 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔