صنعاء (این این آئی )یمن میں حوثی ملیشیا کے زیر کنٹرول علاقوں میں زندگی کے سخت حالات، غربت اور بھوک کے پھیلا کے درمیان گذشتہ دو دنوں کے دوران سوشل میڈیا پر یمنی کارکنوں نے ایک دردناک تصویر شیئر کی ہے۔اس میں صنعا کے جنوب میں شمیلہ کے علاقے میں یمنی خواتین کو کچرے کے ڈھیروں کے درمیان خوراک کی
تلاش میں دیکھا جا سکتا ہے۔اس ویڈیو کے بعد عوام میں حوثیوں ملیشیا کے خلاف بڑے پیمانے پر نفرت کو جنم دیا، جن کے رہ نما یمنیوں کے مصائب کو نظر انداز کرتے ہوئے انہیں بنیادی حقوق سے محروم کر رہے ہیں۔یہ دردناک منظر اقوام متحدہ کے یکے بعد دیگرے انتباہات کے بعد سامنے آیا کہ یمن میں 30 ملین کی کل آبادی میں سے تقریبا 25.5 ملین افراد اب غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، اور انہیں پہلے سے کہیں زیادہ امداد کی اشد ضرورت ہے۔بہت سے انسانی حقوق کی تنظیموں نے بار ہا حوثیوں کو حالات زندگی کی خرابی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، خاص طور پر یمنی دارالحکومت میں ملازمین کی تنخواہوں کو روکنے کے ساتھ ساتھ کئی تجارتوں پر اجارہ داری قائم کرنے، بلیک مارکیٹ میں تیل اور ایندھن کی فروخت۔ اشیائے خور ونوش کی قیمتوں میں ہیرا پھیری اور بدعنوانی اور امدادی تنظیموں کے کام میں رکاوٹ جیسے واقعات عوام کی معاشی مشکلات میں اضافے کا باعث ہیں۔یمن کی آئینی حکومت اور صدارتی قیادت کونسل تنخواہوں کی ادائیگی، جنگ بندی، پروازوں کے تسلسل اور تیل سے ماخوذ بحری جہازوں کے بندرگاہوں میں داخلے کے لیے پرعزم ہیں۔ وزیرخارجہ احمد عوض مبارک نے حال ہی میں کہا ہے کہ حکمت عوام کی مشکلات کم کرنے کے لیے ہرممکن اقدامات کر رہی ہے۔قابل ذکر ہے کہ اقوام متحدہ نے گذشتہ موسم گرما میں اعلان کیا تھا کہ حوثی گروپ کی جانب سے انسانی ہمدردی کے
کام کرنے والے کارکنوں اور ان کی نقل و حرکت پر عائد پابندیاں اس سال 2022 کی دوسری سہ ماہی کے دوران ملک میں ضرورت مندوں تک زیادہ تر انسانی امداد کی آمد میں رکاوٹ ہیں۔ انسانی ہمدردی کے امور کے رابطہ کاری کے دفتر نے اس وقت وضاحت کی کہ انسانی امداد تک رسائی کو محدود کرنے کے کل 532 واقعات رپورٹ ہوئے۔