کیلیفورنیا ۔۔۔۔۔سائنسدان پہلی مرتبہ دنیا میں پائے جانے والے قدیم ترین پانی کی مقدار کا اندازہ لگانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔یہ پانی زمین کی سطح کے بہت نیچے موجود ہے اور سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس کی مقدار ماضی کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔ان کے مطابق یہ پانی جس میں سے کچھ دو ارب سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے دنیا کے تمام دریاؤں، ندیوں اور جھیلوں میں موجود پانی سے زیادہ ہے۔سائنسی امور کے لیے بی بی سی کی نامہ نگار ریبیکا موریلے کے مطابق یہ بات محققین نے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں جاری امریکی جیوفزیکل یونین کے اجلاس میں بتائی ہے۔زمین پر موجود براعظموں کی تشکیل کا باعث بننے والی پرت میں اس سیارے کی قدیم ترین چٹانیں پائی جاتی ہیں لیکن سائنسدانوں نے ان چٹانوں سے بھی کئی کلومیٹر نیچے موجود پانی پر تحقیق کی ہے۔
یونیورسٹی آف ٹورنٹو اور آکسفرڈ یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے مطابق اندازہ لگایا گیا ہے کہ اس پانی کی مقدار ایک کروڑ دس لاکھ مکعب کلومیٹر ہے۔یہ مقدار اس تمام پانی سے زیادہ ہے جو دنیا بھر میں موجود آبی ذخائر میں پایا جاتا ہے۔یونیورسٹی آف آکسفرڈ کے پروفیسر کرس بیلنٹائن کا کہنا ہے کہ اہم بات یہ ہے کہ اس زیرِ زمین پانی کے قدیم چٹانوں سے ملاپ کے نتیجے میں ہائیڈروجن گیس بن رہی ہے جو کہ ایک غذائی عنصر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے براعظموں کے نیچے اس علاقے میں بھی زندگی پائی جا سکتی ہے جس کے بارے میں پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہ بنجر ہے۔
زیر زمین پانی دنیا کے تمام دریاؤں، ندیوں اور جھیلوں سے زیادہ ہے،سائنسدان
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں