استنبول (این این آئی)صدر رجب طیب ایردوآن کی جانب سے اعلان کرنے کے بعد کہ ان کا ملک یوکرین کی پوری متحدہ سرزمین پر خودمختاری کی حمایت کرتا ہے ترک حکومت نے انکشاف کیا کہ اس نے روسی جنگی جہازوں کو آبنائے باسفورس اور دردنیل کو عبور کرنے سے روکنے کے فیصلے سے روس کو باضابطہ طور پر مطلع کر دیا ہے۔ ترکی کے وزیر خارجہ مولودچاووش اوگلو نے
اس بات کی تصدیق کی کہ ان کا ملک ’’بحیرہ اسود کے بحری اور غیر دریا کے ممالک‘‘ کے جنگی جہازوں کو باسفورس اورآبنائے درد نیل عبور کرنے سے روکے گا۔داؤد اوگلو نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے ملک نے بحیرہ اسود کے تمام دریا والے اور غیر دریا والے ممالک کو مطلع کیا ہے کہ وہ اپنے جنگی جہاز ان کی آبنائو سے گزرنے کے لیے نہ بھیجیں۔انہوں نے مزید کہا کہ انقرہ مونٹریکس کنونشن کی دفعات کا پابند ہے جو اسے ان دونوں آبناؤں کے کراسنگ کو کنٹرول کرنے کا حق دیتا ہے۔یہ پیش رفت یوکرین میں روسی فوجی آپریشن کے تسلسل کی روشنی میں سامنے آئی ہے جہاں اردوآن نے مزید کہا کہ ان کا ملک آبنائوں میں بحری جہازوں کی نقل و حرکت کے حوالے سے مونٹریکس کنونشن کے تحت اپنے اختیارات کو اس طرح استعمال کرنے کے لیے پرعزم ہے جس سے بحران کو بڑھنے سے روکا جا سکے۔انہوں نے مزید کہا کہ انقرہ روس اور یوکرین کے درمیان امن و استحکام کو یقینی بنانے کے لیے اپنے کثیر جہتی سفارتی اقدامات کو بلا تعطل جاری رکھے گا۔ترکی کا یہ فیصلہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی درخواست کے جواب میں آیا ہے، جنہوں نے گذشتہ ہفتے کے روز اپنے ملک کے ترکی سے باسفورس اور دردنیل آبناؤں کو روسی جنگی جہازوں کے لیے بند کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ترک صدر نے ہفتے کے روز اپنے یوکرائنی ہم منصب زیلنسکی کو بتایا کہ انقرہ اس ہفتے کے شروع میں یوکرین میں روس کی جانب سے شروع کیے گئے فوجی آپریشن کے بعد جلد از جلد جنگ بندی تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔گذشتہ اتوار کو ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاووش اوگلو نے ایک مقامی چینل پر اعلان کیا کہ ان کا ملک مونٹریکس کنونشن کی تمام شقوں کو شفاف طریقے سے نافذ کرے گا، یہ معاہدہ سوئٹزرلینڈ میں 1936 میں طے پایا تھا۔اس معاہدے کی شرائط کے مطابق انقرہ امن کے وقت میں بحیرہ اسود میں خشکی سے گھرے ممالک کے بحری جہازوں اور جنگی جہازوں کو اپنے آبنائے (باسفورس اور دردنیل جو بحیرہ اسود کی
طرف جانے کا بحری راستہ ہے) سے آزادانہ طور پر گزرنے کی اجازت دیتا ہے، لیکن خشکی والے ممالک کے جنگی جہاز بحیرہ اسود میں 21 دن سے زیادہ نہیں رہ سکتے۔انقرہ شہری اور تجارتی بحری جہازوں کو بھی اپنے آبنائے باسفورس سے گزرنے سے روک سکتا ہے اگر وہ متحارب فریق ہو لیکن امن کے وقت وہ ان جہازوں اور بحری جہازوں کو گزرنے کی اجازت دیتا ہے۔روس کی طرف سے گذشتہ جمعرات کو شروع کیے جانے والا فوجی آپریشن ہفتوں کی کشیدگی اور یوکرین کی سرحد پر روسی فوج کی تعیناتی کے بعد اور روسی صدر پوتین کی جانب سے مشرقی یوکرین میں علیحدگی پسند ڈونیٹسک اور لوگانسک علاقوں کی خودمختاری کو تسلیم کرنے کے اپنے فیصلے کے اعلان کے چند دن بعد سامنے آیا ہے۔