لاہور (مانیٹرنگ ڈیسک ) امریکہ کی ہند چینی (Indo-Pacific) کمانڈ کے تحت تین لاکھ پچھتر ہزار سپاہی ہیں۔ امریکہ کی پوری نیوی کے 60 فیصد جہاز اس خطے میں بھیجے جا چکے ہیں، فوج کے 60 فیصد سپاہی اس لڑائی کے لئے مختص کر دئیے گئے ہیں اور میرین کور (Marine Corps) جو فوری اٹیک کے لئے مستعد فوجی گروہ ہے، اس کے 79 فیصد جوان اسی خطے میں موجود ہیں۔سینئر کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔ اس کے علاوہ تین بحری بیڑے اور
دوسو کے قریب جہاز وہاں منڈلارہے ہیں۔ اس کے مقابلے میں چین نے بھی 4 مارچ 2012ء کو اپنے فوجی بجٹ میں 11.2 فیصد اضافہ کر کے اسے 106 ارب ڈالر تک پہنچا دیا تھا اور آج آٹھ سال بعد چین کا سالانہ عسکری بجٹ 200 ارب ڈالر کے برابر ہے۔ چین نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں، بلسٹک اور کروز میزائلوں کے پروگرام میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ امریکہ نے اس خطے کے تقریباً پندرہ قریبی ممالک کو اپنا اتحادی بنایا ہے جن میں بھارت، جاپان اور آسٹریلیا تین بنیادی اراکین ہیں۔ امریکہ نے اپنا سب سے پہلا فوجی اڈہ آج سے ایک سو بیس سال قبل 1898ء میں فلپائن میں بنایا تھا جہاں اس کی افواج آج بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا میں موجود امریکی اڈہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ یوں تو یہاں صرف 19 ہزارامریکی سپاہی ہیں لیکن پوری جنوبی کوریا کی فوج امریکی اشارے پر مستعد ہے۔ اس ملک کے ہوائی اڈوں پر امریکی ائیرفورس کے جہازوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ دوسرا ملک جاپان ہے جہاں اس وقت بھی امریکہ کے پچاس ہزار سپاہی مختلف اڈوں پر موجود ہیں اور جاپان کی فوج بھی امریکی اتحادی ہے۔ امریکہ کا ساتواں بحری بیڑہ اس خطے میں موجود ہے۔ دو اور بحری بیڑے ’’رونالڈویگن‘‘ اور ’’تھیورڈر روزویلٹ‘‘ بھی اسی جنوب مشرقی بحر الکاہل میں گشت کر رہے ہیں۔ گوام یوں تو ایک چھوٹا سا ملک ہے، لیکن وہاں امریکہ کا بہت بڑا فوجی اڈہ کیل کانٹے سے لیس ہے۔ سمندر میں امریکہ کے دوسو بحری جہاز موجود ہیں، جن میں پانچ بڑے جہاز ہیں، جن پر فائٹر طیارے موجود ہیں اور وہ ان بحری جہازوں سے اٹیک کیلئے پرواز کر سکتے ہیں۔ یہ وہ نقشہ ہے جو اس خطے میں موجود افواج کا ہے۔ اس کے علاوہ اس خطے میں لڑائی کی صورت میں فوری طور مستعد ریزرو میں گیارہ سو فائٹر جہاز اور ایک لاکھ تیس ہزار نیوی کے سپاہی بھی امریکی چھاونیوں میں مختص کردئیے گئے ہیں۔ یہ تمام عسکری قوت صرف اور صرف امریکہ کی ہے۔ اتنی بڑی عسکری قوت کے بارے میں امریکی ماہرین کی رائے یہ ہے کہ یہ چین کا مقابلہ کرنے کے لئے تھوڑی ہے۔ امریکہ کو آسٹریلیا، جاپان اور بھارت کے علاوہ دیگر ایک درجن ممالک کو بھی اس مقصد کے لئے ساتھ ملانا چاہیے تاکہ چین کی ترقی اور قوت کو لگام ڈالی جاسکے۔ سر پر کھڑی ہوئی لڑائی کا یہ سمندری میدان ہے، جس کا بنیادی ہدف چین کی بڑھتی ہوئی قوت اور پھیلتی ہوئی تجارت کو روکنا ہے۔ لیکن چین اسے بڑے سمندری راستوں کی ناکہ بندی کی صورت میں زمینی راستوں پر اپنا ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ کا منصوبہ بھی شروع کر رکھا ہے۔ آئندہ محاذِ جنگ اس منصوبے کو روکنے کیلئے کھولا جائیگا۔ اس منصوبے کی اہم ترین کڑی کاشغر سے گوادر تک کا راستہ ہے۔ چین نے مغربی سمت یورپ اور دیگر ملکوں سے معاہدات کے بعد خود کو مضبوط کر لیا ہے، لیکن وار میں ایک لفظ استعمال ہوتا ہے ’’Soft Belly‘‘ یعنی وہ نرم جگہ جہاں لڑائی چھیڑ کر کسی ملک کی معیشت کو تباہ کیا جا سکتا ہے۔ وہ مقام لداخ سے کشمیر اور سکم سے نیپال تک کا علاقہ ہے۔ اس لڑائی میں اترنے کیلئے بھارت کو تیار کیا گیا ہے۔ اسی وجہ سے بھارت کو امریکہ نے اکیسویں صدی کا پارٹنر کہا ہے۔ اس لڑائی کا ٹریلر چند ماہ پہلے لداخ میں چل چکا ہے، اور اب پوری لڑائی اپنے آغاز کیلئے تیار ہے۔ سمندر کی افواج تو ناکہ بندی کے لئے تیار ہیں لیکن میدان تو زمین پر سجے گا۔ اصل لڑائی تو یہاں پر ہوگی، چین، بھارت اور پاکستان میں۔ وہ لوگ جو سیدالانبیائؐ کی پیشن گوئیوں کا انکار کرتے تھے، انہیں اسماء الرجال کے پیمانوں میں تول کر جھوٹی ثابت کرتے تھے، کیا آج ان کے پاس کوئی
جواب ہے کہ وہ چین جس نے ماضی میں کبھی ہندوستان سے لڑائی نہ کی ہو، اس کی لڑائی تو ہمیشہ منگولوں سے رہی ہو اور ہمیشہ شکست چین کا مقدر بنی ہو، لیکن، میرے آقا سید الانبیائؐ نے چودہ سو سال پہلے اس عرب میں بیٹھ کر جو تہذیب سے کٹا ہوا تھا، جہاں کوئی حکومت تک نہ تھی، جو عالمی امور سے آشنا تھا، آپ نے وہاں یہ اعلان فرمایا کہ، ’’ھند کی تباہی چین سے‘‘ اور آج یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے۔ ایسے پیغمبر ﷺکی حقانیت پر کوئی جاہل، کوڑھ مغز اور متعصب شخص ہی ہوگا جو ایمان نہ لائے۔