اسلام آباد(مانیٹرنگ+آن لائن) اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو کارروائی جاری رکھنے کی ہدایت کرتے ہوئے صحافی اسد طور کی پٹیشن خارج کر دی ہے اور ہم ٹی وی کی اینکر شفاء یوسفزئی کی کردار کشی کے معاملے میں ایف آئی اے کو اسد طور سے قانون کے مطابق نمٹنے کی ہدایات کر دی ہیں، واضح رہے کہ اسلام آباد
ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ایف آئی اے اختیارات کیخلاف درخواستوں پر سماعت کی۔ڈائریکٹر ایف آئی اے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں پیش ہوئے، عدالت نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا جائے کہ ایسی کتنی شکایات پاکستان بھر سے موصول ہوئیں جس پر ڈائریکٹر ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ ایسی ہزاروں شکایات پاکستان بھر سے موصول ہوتی ہیں جس پر عدالت نے کہا کہ پھر آپ صرف پسند کی شکایات پر کارروائی کیوں کررہے ہیں ایف آئی اے کا ایسے نوٹس جانا کسی کے لئے بھی دھمکی کی حیثیت رکھتا ہے، ایف آئی اے معاشرے میں خوف و ہراس پھیلا رہی ہے،ایف آئی اے کو اختیارات کا احتیاط سے استعمال کرنا ہے،ایف آئی اے جب کسی کو طلب کرتی ہے تو اس کے نتائج ہوتے ہیں،شفاف ٹرائل ثابت کرنے کا بار ثبوت تفتیشی افسران پر ہے،آپ نوٹس پر تاریخ تک نہیں لکھتے تفتیشی افسر کو پتہ ہونا چاہیے جرم ہے کیا؟ایف آئی آر کے لیے شکایت کنندہ ہونا ضروری ہے پہلے تفتیش ہونی چاہیے پھر ایف آئی آر درج ہو جس پر ایف آئی اے اہلکار نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا شکایات سے متعلق کارروائی کے ایس او پیز بنا رہے ہیں، عدالت نے کہا کہ یہ کون سا طریقہ ہے کہ تفتیشی واٹس ایپ پر نوٹس جاری کرتا ہے؟صحافی بلال غوری کو نوٹس کو کس کی شکایت پر جاری ہوا؟ جس پر
ایف آئی اے ڈائریکٹر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد کے شہری نے بلال غوری کے یوٹیوب چینل سے متعلق شکایت کی شکایات میں کہا گیا تھا، بلال غوری نے ان کے اباؤ اجداد پر کیچڑ اچھالا ہے جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا تفتیشی نے نوٹس بھیجنے سے پہلے وہ یوٹیوب پروگرام دیکھا؟اس موقع پر تفتیشی نے عدالت میں بلال
غوری کے پروگرام کا ٹرانسکرپٹ پڑھ کر سنایاٹرانسکرپٹ میں مختلف برادریوں کے انگریز نواز ہونے کا ذکر ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں تو شکایت کنندہ سے متعلق کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ایف آئی اے تو ڈائریکٹ کسی کی ذات سے متعلق کچھ ہو تو کارروائی کرے گا،ایف آئی اے نے اسد طور کیخلاف یوسفزئی کی شکایت بھی
پڑھ کر سنائی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے صحافیوں کے کیس ہی اٹھانا ہوتے ہیں؟کس بنیاد پر ہزاروں شکایات چھوڑ کر صرف صحافیوں کو نوٹس ہو رہے ہیں؟ اس طرح تو نہ کوئی صحافی رہے گا نہ کوئی پارلیمنٹرین رہے گا۔اسد طور کیس میں تفتیشی کو دوبارہ جائزہ لینے کا کہا تھا کیا بنا؟اسد طور کو جاری دوسرا نوٹس عدالت میں
پیش کر دیا گیاکہا بھی تھا نوٹس پر تاریخ لکھیں، پھر وہی کیا ہے تاریخ نہیں لکھی؟یہ نوٹس بھی گزشتہ سماعت سے پہلے جاری ہوْچکا تھا۔اس موقع پر عدالت نے اسد طور کو شکایت کی کاپی فراہم کرنے کا حکم دیا،اسد طور کیس میں عدالت نے ایف آئی اے کو قانون کیمطابق کارروئی کا بھی حکم دیا۔اسد طور کیس دو نیچرل پرسن کے درمیان اس میں ایف آئی اے کو روک نہیں سکتے
جو شکایت پڑھ کر سنائی گئی اس پر ابھی کوئی آبزرویشن نہیں دینا چاہتے،ابھی نہیں کہنا چاہتے کہ ان الزامات کو ثابت کرنے کا بار کس پر ہے، پارلیمنٹ نے جو اختیار ایف آئی کو دیئے ہیں اس پر مداخلت نہیں کریں گے، عدالت نے اسد طور کی حد تک کیس نمٹا دیا۔دیگر کیسز میں ایف آئی اے کو ہمیں مطمئن کرنا ہو گا یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ایف آئی اے صرف صحافیوں کو ٹارگٹ کر رہی ہے کیس کی سماعت دو ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی گئی۔