واشنگٹن (این این آئی) سینئر امریکی سینیٹر لنزے گراہم نے امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان سے رابطے کرنے میں ہچکچاہٹ کو حیرت انگیز قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ افغانستان کے انخلا کرتے ہوئے پاکستان کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تباہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔جنوبی کیرولینا سے
تعلق رکھنے والے سینیٹر نے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ سن کر حیرت ہوئی کہ صدر جو بائیڈن نے امریکا پاکستان تعلقات اور افغانستان کے سلسلے میں وزیراعظم عمران خان سے رابطہ نہیں کیا۔لنزے گراہم جو کابل اور اسلام آباد کے ساتھ امریکی رابطوں کی حمایت کرتے ہیں نے صدر جو بائیڈن کو یاددہانی کروائی کہ افغانستان سے ان کے انخلا کے منصوبے میں پاکستان کا تعاون درکار ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم کس طرح پاکستان سے تعاون کیے بغیر افغانستان سے اپنا انخلا مؤثر ہونے کی توقع کرسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ واضح طور پر بائیڈن حکومت سمجھتی ہے کہ افغانستان میں ہمارے پیچھے مسائل ہیں۔سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی افغان پالیسیز پر اثر انداز ہونے والے تمام ریپبلکن قانون سازوں نے خبردار کیا کہ بائیڈن حکومت کے تمام افواج کے انخلا اور پاکستان کے ساتھ رابطے میں نہ رہنے کا فیصلہ ایک بڑی تباہی بن رہا ہے جو عراق میں کی گئی غلطی سے بھی زیادہ بری ہے۔دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع کا ایک وفد رواں ہفتے ترکی کا دورہ کرے گا۔ اس دورے کے دوران امریکی تکنیکی ماہرین افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک بین الاقوامی ہوائی اڈے کے قیام پر ترک حکام کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے رواں سال ستمبر سے افغانستان سے نیٹو افواج کا انخلا مکمل
ہونے جا رہا ہے۔اس سے قبل امریکا نے ترکی کے ساتھ مل کر کابل میں ایک ہوائی اڈے کے قیام پر غور کیا تھا۔ کابل بین الاقوامی ہوائی اڈے کے انتظام اور اسے چلانے کی ذمہ داری ترکی کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔میڈیارپورٹس کے مطابق ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے گذشتہ ہفتے برسلز میں ہونے والے نیٹو سربراہ
اجلاس کے موقع پر اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کے ساتھ اس تجویز پر تبادلہ خیال کیا تھا۔اس حوالے سے پینٹاگان کا اعلی اختیاراتی وفد، جس میں تکنیکی ماہرین بھی شامل ہوں گے، جمعرات کو انقرہ کا دورہ کرے گا۔ اس دورے کا مقصد کابل میں ہوائی اڈے قیام کے لیے ترک حکام کے ساتھ بات چیت کرنا ہے۔ترکی چھ سال سے افغانستان میں کابل حامد کرزئی بین الاقوامی ہوائی اڈے پر کام کر رہا ہے لیکن ابھی تک اس کی تجویز کو عملی شکل نہیں دی جا سکی۔