لاہور(این این آئی) ٹیکسوں میں ریلیف سے 800 سی سی تک چھوٹی گاڑیاں 70 ہزار سے ایک لاکھ پانچ ہزار تک سستی ہو گئیں، تاہم یہ فائدہ صارفین کو بکنگ پر تین سے چار ماہ میں ملے گا، دوسری جانب کار ڈیلرز نے چھوٹی درآمدی گاڑیوں پر بھاری ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔تفصیلات کے مطابق حکومت نے 850 سی سی
گاڑیوں پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کردیااور سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے ساڑھے 12 فیصد کر دیا ہے، اس اقدام سے مقامی طور پر تیار چھوٹی گاڑیاں 70 ہزار سے ایک لاکھ 5 ہزار روپے تک سستی ہو گئی ہیں،تاہم اب ایسا بھی نہیں ہے کہ گھر سے گئے اور سستی گاڑی فوری مل گئی، کیونکہ ڈیلر حضرات حیلوں بہانوں اور تاخیری حربوں سے تین سے چارماہ کا انتظار کرائیں گے۔دوسری جانب کار ڈیلرز نے چھوٹی درآمدی گاڑیوں پر عائد بھاری ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ صارفین کو بہترین فیچرز کی حامل گاڑیاں مناسب قیمت پر مل سکیں،شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت نے چھوٹی گاڑیوں پر ٹیکسز کم کیے ہیں تو مینوفیکچررز اور ڈیلرز کو بھی گاڑیوں کی فوری سپلائی دینے کا پابند کیا جائے۔ دوسری جانب نیشنل بزنس گروپ پاکستان کے چیئرمین، پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم وآل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ حکومت نے نئے بجٹ میں کاروباری برادری کو جہاں ایک طرف مراعات دی ہیں تو دوسری طرف مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے۔ وزیر خزانہ نے ٹیکس تنازعات میں اسسٹنٹ کمشنر کو گرفتاری کے اختیارات واپس لینے کا عندیہ دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ اختیارات وزیر خزانہ کی سربراہی میں میں تین رکنی کمیٹی کے پاس
ہوں گے۔ تاہم یہ بھی بزنس مینوں پر لٹکتی تلوار ہے جو ناقابل قبول ہے کیونکہ ٹیکس تنازعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ بزنس کمیونٹی کو موقع دیا جائے کہ وہ یکسوئی سے پیداوار برآمدات اور روزگار بڑھانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ کسٹمز ایکٹ کے سیکشن 156 میں تازہ ترمیم جس کے ذریعے امپورٹرز کو پابند کیا گیا ہے کہ ان
کے درآمدی کنٹینرز میں مال کے ہمراہ انوائس موجود ہونا لازمی ہے ورنہ ان پر جرمانے عائد کئے جائینگے اور رجسٹریشن معطل کی جا سکے گی غیر ضروری اور ناقابل عمل ہے۔ غیر رجسٹرڈ کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ترغیبات اور الیکٹرونک ڈیٹا کا استعمال کیا جائے پوائنٹ آف سیل سسٹم اس کی اچھی مثال ہے
بجلی و گیس کے بل اور پراپرٹی کے لین دین کا ریکارڈ بھی ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔میاں زاہد حسین نے کاروباری برادری سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ سال مراعات کے باوجود مجموعی سرمایہ کاری میں اضافہ کے بجائے معمولی کمی ہوئی ہے مگر اس سال صورتحال کو بہتر بنانا ہو گا۔
برآمدات کے مقابلہ میں درآمدات مسلسل بڑھ رہی ہیں جو ایک طرف تو اقتصادی سرگرمیوں میں اضافہ کا ثبوت ہے تو دوسری طرف اس سے تجارتی خسارہ بھی بڑھتا ہے جس کا واحد حل ایکسپورٹ میں اضافہ ہے، جس کے لیے بجلی اور گیس کی مسلسل فراہمی اور ان کی قیمتوں میں حریف ممالک کے ساتھ مسابقت ہے۔میاں زاہد حسین نے
مزید کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جس سے امپورٹ بل بڑھ جائے گا تاہم اگر امریکہ نے ایران سے پابندیاں ہٹا لیں تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت کم ہو جائے گی جس کا امکان موجود ہے۔ انھوں نے کہا کہ بجٹ میں بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح کو 66 فیصد سے بڑھا کر 68 فیصد کر دیا گیا ہے جس سے
غربت بڑھے گی۔ بجٹ میں امیر اور غریب طبقہ کی فلاح پر توجہ دی گئی ہے اور متوسط طبقہ کیلئے بلا سود کاروباری قرضے کی سکیم بنائی گئی ہے جس سے ذاتی کاروبار میں اضافہ کے امکانات ہیں جس سے مہنگائی بے روزگاری اور آمدنی میں کمی کا مقابلہ کیا جا سکے گا۔ بجٹ میں 610 ارب روپے کی پیٹرولیم لیوی لگانے کا
فیصلہ بھی کیا گیا ہے جس کی وجہ سے تیل کی قیمتوں میں مزید اضافے کیے جاتے رہیں گے۔ جس سے عوام پر بوجھ بڑھے گا۔ میاں زاہد حسین نے مزید کہا کہ اکنامک سروے میں غربت اور بے روزگاری کے بارے میں کچھ نہیں کہا گیا ہے اوراس دعوے پر یقین کرنا مشکل ہے کہ کرونا وبا کے دوران صرف بیس لاکھ افراد بے روزگار ہوئے اور اب ان میں سے اٹھارہ لاکھ دوبارہ برسر روزگار ہو چکے ہیں، جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زیادہ افراد بے روزگار ہیں۔