لندن(این این آئی)کووڈ 19 کے ہسپتالوں سے ڈسچارج ہونے والے مریضوں کی اکثریت کو طویل عرصے تک مختلف علامات جیسے سانس لینے میں مشکلات، تھکاوٹ، ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کا سامنا ہوتا ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق یہ بات برطانیہ میں ہونے والی طبی تحقیق میں سامنے آئی ۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس سے پہلی بار متاثر ہونے کے 2 سے 3 ماہ بعد
بھی بظاہر صحتیاب قرار دیئے جانے والے مریضوں کی اکثریت کو مختلف اقسام کی علامات کا تجربہ ہوتا ہے۔اس تحقیق کے دوران محققین نے متعدد مریضوں کے ایم آر آئی ٹیسٹوں میں متعدد اعضا کے افعال میں خرابیوں کو بھی دریافت کیا گیا اور ان کا ماننا ہے کہ ورم کا تسلسل یا دائمی ورم ممکنہ طور پر وہ عنصر ہے جو کووڈ 19 کے مریضوں میں طویل المعیاد اثرات کا باعث بنتا ہے۔اس تحقیق میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈکلف ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسین، آکسفورڈ بائیومیڈیکل ریسرچ سینٹر اور این آئی ایچ آر آکسفورڈ ہیلتھ بی آر سی کے ماہرین شامل تھے۔نتائج سے معلوم ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 2 سے 3 ماہ بعد بھی 64 فیصد مریضوں کو سانس لینے میں مشکلات اور 55 فیصد کو شدید تھکاوٹ کا تجربہ ہورہا تھا۔اعضا میں یہ خرابیاں ایسے مریضوں میں دریافت ہوئیں جن میں ابتدا میں اس مرض کی شدت زیادہ سنگین نہیں تھی۔ایم آر آئی میں مریضوں کے دماغ کے حصوں کے ٹشوز میں تبدیلیوں کو بھی دیکھا گیا جبکہ ان افراد کی دماغی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے مقابلے میں کووڈ 19 کا شکار ہونے والوں کی جانب سے ذہنی بے چینی اور ڈپریشن کی علامات رپورٹ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے جبکہ ان کا معیار زندگی بھی متاثر ہوتا ہے۔محققین کے مطابق یہ نتائج اس اہمیت پر زور دیتے ہیں کہ کووڈ 19 کے جسمانی عمل کی مزید جانچ پڑتال کی جانی چاہیے اور اس کے مطابق مریضوں کی نگہداشت کے عمل کی حکمت عملی مرتب کرنی چاہیے۔