پیر‬‮ ، 08 دسمبر‬‮ 2025 

نیب نے ان لوگوں کو بھی ملزم بنایا ہے جن کو ملزم نہیں بنایا جانا چاہیے تھا، عدالت شدید برہم

datetime 5  اکتوبر‬‮  2020 |

اسلام آباد(این این آئی)ہائی کورٹ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ نیب گورننس کے ساتھ تباہ کن طریقے سے کھیل رہا ہے اور نیب نے تمام کیسز میں وزیروں کو ملزم بنایا ہوا ہے۔ پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے نندی پور ریفرنس میں سابق وزیر قانون بابر اعوان اور جسٹس (ر) ریاض کیانی کی بریت کے خلاف نیب اپیلوں پر سماعت کی۔

سابق سیکرٹری قانون مسعود چشتی کے وکیل امجد پرویز ایڈووکیٹ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانونی رائے میں تاخیر سے نندی پورریفرنس پراجیکٹ میں تاخیر کا الزام عائد کیا گیا، ریاض کیانی بھی سیکرٹری قانون رہے اور انہیں بری کیا گیا، یہ ایشو مسعود چشتی کے سیکرٹری قانونی مقرر ہونے سے پہلے سے چل رہا تھا، میرے موکل سے قبل ریاض کیانی سمیت 2 سیکرٹری قانونی رائے دینے سے انکار کر چکے تھے، میرے موکل پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا نندی پور ریفرنس میں صرف اور صرف تاخیر ہی واحد جرم ہے؟ وکیل امجد پرویز نے جواب دیا کہ جی، میرے موکل ایک دھیلے کے روادار نہیں تاہم انہیں ملزم نامزد کر دیا گیا، نندی پور منصوبہ اْس وقت کے وزیراعظم اور صدر کے نوٹس میں تھا، نہ صدر اور نہ ہی وزیراعظم نے اس پر کوئی اعتراض کیا تھا۔ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے استفسار کیا کہ نندی پور منصوبے میں کیا جرم تھا آپ بھی بتائیں، نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب دیا کہ اس کیس میں فرد جرم بھی عائد ہو چکی ہوئی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ایک غیر ملکی کمپنی کیساتھ معاہدے پرنندی پور ریفرنس بنایا گیا، کیا اْس غیر ملکی کمپنی کو بتایا گیا تھا کہ اس کی کلیئرنس نہیں لی گئی؟ کیا ایسی کوئی کلیئرنس لینے کی ضرورت تھی؟ جب لا ڈویژن منظوری پہلے ہی دے چکی تھی؟ بادی النظر میں تویہ کیس بنتا ہی نہیں دکھائی دیتا،

اگر جرم ہی نہیں تو پھر یہ ریفرنس بنا کر ریاست کیلئے شرمندگی کا باعث نہیں بنایا گیا؟ عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کو ہدائت کی کہ ڈاکومنٹ دکھائیں کہ سیکرٹری قانون نے قانون کی کیا خلاف ورزی کی، جب وزارت قانون نے رائے دینے سے انکار کیا تو کیا آپ نے معاملہ اٹارنی جنرل کو ریفر کیا؟ اس طرح کے مزید کتنے کیسز آپ نے بنائے ہیں؟۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ

کہتے ہیں کہ وزارت قانون نے معاہدوں کے بعد قانونی رائے دینے سے انکار کیا، آپ چینی کمپنی کے ساتھ معاہدے کے بعد وزارت قانون سے رائے مانگ رہے تھے، اگر آپ اس طرح کریں گے تو آپ کے پاس فارن انویسٹر کیوں آئے گا؟ یہ بتائیں کہ قانونی رائے میں تاخیر کر کے سیکرٹری قانون کو کیا فائدہ ہوا؟ جب معاہدہ ہو چکا تو پھر وزارت قانون سے منظوری کی ضرورت ہی کیا بچی،

جب وزارت قانون نے اپنی قانونی رائے نہیں دی تو اس سے قومی خزانے کو نقصان ہوا، پراسیکیوٹر نیب آ پ نیب ہیں، آپ کرپشن کے کیس پکڑیں، کیا اس میں کوئی کرپشن ہے، آپ ابھی ایک لفظ نہیں بتا دے سکے کہ کرمنل ایکٹ کہاں ہوا ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ وزارت خزانہ یا پانی و بجلی نے تو کوئی اعتراض نہیں کیا تو نیب کا تفتیشی پھر کون ہوتا ہے کہنے والا کہ رائے

ضروری تھی، نیب بیوروکریٹ کا فیصلے لینے کا اختیار واپس لینا چاہتا ہے، اس وقت سارے مسائل پیدا ہی اسی وجہ سے ہو رہے ہیں، ریکوڈک میں ہمیں کتنا نقصان ہوا ہے؟ اس طرف نہ جائیں، نیب کو دس چیزیں پہلے سوچ کے آگے چلنا چاہیے۔نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے کہا کہ 19 مارچ 2009 کو آپ نے ایگریمنٹ سائن کیا، 17 اپریل کو 2009 کو وزارت قانون نے جواب دیا۔

چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ نیب تفتیشی کسی رپورٹ سے متاثر نہیں ہو سکتا، اس طرح تو فئیر ٹرائل ختم ہوگیا، پھر تو کیس میں تفتیشی افسر مقرر کرنے کی ضرورت ہی نہیں بچی تھی، ایسا کر کے تفتیشی افسر نے سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی، رولز آف بزنس کے مطابق سیکرٹری وزارت کا انچارج ہوتا ہے، نیب نے تمام کیسز میں وزیروں کو

ملزم بنایا ہوا ہے، کیا آپکو معلوم ہے ریفرنس کیا ہے؟ یفرنس نیب کا چالان ہوتا ہے وہ الزامات کی سمری ہوتی ہے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا سابق سیکرٹری قانون لاہور سے آتے ہیں اور احتساب عدالت سے تاریخ لے کر واپس چلے جاتے ہیں، ان کا کیا شوق تھا سیکرٹری بننے کا، پتہ نہیں باقی بیوروکریٹس کا کام کیسے ہو رہا ہے؟ نیب کا کام کرپشن پکڑنا ہے لیکن آپ اس سے ہٹ کر

پروسیجرل معاملات میں چلے گئے، اگر وہ رائے دے دیتے تو پھر آپ کہتے کہ یہ رائے دی کیوں؟ اسی لیے تو آج گورننس رکی ہوئی ہے، اس طرح کی آپ کی مداخلت ہے تو پھر گورننس تو نہیں چلے گی، اس طرح کے ماحول میں تو کوئی بیوروکریٹ رائے دینے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے ان لوگوں کو بھی ملزم بنایا ہے جن کو ملزم نہیں بنایا جانا چاہیے

تھا، لوگوں کی سوسائٹی میں عزتیں خراب ہو جاتی ہیں، نیب گورننس کے ساتھ تباہ کن طریقے سے کھیل رہا ہے، یہ نیب کا لیول نہیں، اینٹی کرپشن والے بھی ایسا نہ کریں، نیب کو پتہ ہونا چاہیے کہ ان کے ہر ایکشن

سے گورننس پر کیا فرق پڑتا ہے۔عدالت نے ڈاکٹر بابر اعوان کی بریت کے خلاف نیب اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا جبکہ جسٹس ریٹائرڈ ریاض کیانی کی بریت کے خلاف نیب اپیل پر بھی فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

موضوعات:

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



نوٹیفکیشن میں تاخیر کی پانچ وجوہات


میں نریندر مودی کو پاکستان کا سب سے بڑا محسن سمجھتا…

چیف آف ڈیفنس فورسز

یہ کہانی حمود الرحمن کمیشن سے شروع ہوئی ‘ سانحہ…

فیلڈ مارشل کا نوٹی فکیشن

اسلام آباد کے سرینا ہوٹل میں 2008ء میں شادی کا ایک…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(آخری حصہ)

جنرل فیض حمید اور عمران خان کا منصوبہ بہت کلیئر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(چوتھا حصہ)

عمران خان نے 25 مئی 2022ء کو لانگ مارچ کا اعلان کر…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)

ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…