اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک)سابق آئی پنجاب شعیب دستگیر کی مشاورت کے بغیر تعیناتی اور نازیبا الفاظ کے استعمال پر سی سی پی اور لاہور عمر شیخ کیخلاف ڈٹ گئے تھے ، سابق آئی جی پنجاب نے وزیراعظم اور وزیراعلی پنجاب کو احتجاج ریکارڈ کرانے کے بعد بھی دفتر نہ گئے ، پنجاب حکومت نے یکم ستمبر کو سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید کو عہدے سے ہٹا کر
بیسویں گریڈ کے محمد عمر شیخ کو تعینات کیا تھا ۔ عمر شیخ نے لاہور پولیس افسران کیساتھ ملاقات میں آئی جی کے احکامات ماننے سے منع کیا تھا ۔ جب سابق آئی جی اس بارے میں علم ہوا تو انہوں نے گزشتہ جمعہ کےدن عمران خان سے ملاقات کی وزیراعظم کو انہوں نے عمر شیخ کے بارے میں بتایا ۔پھر وزیراعظم کی ہدایت پر گزشتہ روز وزیراعلی عثمان بزدار سے بھی ملاقات کی ، وزیراعلی پنجاب مصالحت کا کروانے کا کہتے ہے لیکن سابق آئی پنجاب قائل نہ ہوئے ۔ قبل ازیں تحریک انصاف کی دو سالہ حکومت میں پنجاب میں 5 آئی جی تبدیل ، آئی جی پنجاب شعیب دستگیر کا تبادلہ کر دیا گیا۔تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے 2 سال میں پنجاب کے 5 آئی جی تبدیل کئے گئے۔ خیال رہے آئی جی پنجاب اور سی سی پی او کا تنازع شدت اختیار کر گیا تھا۔ شعیب دستگیر دوسرے روز بھی دفتر نہ آئے۔ آئی جی پنجاب کی وزیراعلیٰ سے ملاقات بھی کام نہ آئی۔ نجی ٹی وی دنیا کے مطابق دونوں افسران کے تنازع کی وجہ سے دفتری امور ٹھپ ہو کر رہ گئے تھے۔ذرائع کے مطابق سی سی پی او لاہور کی تعیناتی تمام تر پہلوئوں کو مد نظر رکھتے ہوئی کی گئی۔ پنجاب اور وفاق کے اعلیٰ عہدیداروں نے لاہور پولیس کے نئے سربراہ کو تبدیل نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ سی سی پی او لاہور نے آئی جی پنجاب سے تحفظات دور کرنے کے سلسلے میں رابطہ کیا۔ پنجاب پولیس کے سربراہ کی جانب سے کوئی جواب نہ آیا۔لاہور پولیس کے سربراہ عمر شیخ کا کہنا ہے کہ لاہور میں سب افسران کو کام کرنا ہے، جس نے نہیں کرنا، وہ جاسکتا ہے۔ذرائع کے مطابق پنجاب میں پولیس کلچر اور دیگر اصلاحات کا پلان پر عمل درآمد کا حکم دے دیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ کو خاص ہدایت دیں۔ صوبہ بھر میں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف فل ایکشن لینے کا حکم دیا اور ہدایت کی کہ لاہور سمیت پنجاب کے بدمعاشوں کو گرفتار کیا جائے، کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں۔